غزوہ سفوان یا غزوہ بدر اولیٰ:
غزوہ عشیریہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ واپس آئے ہوئے دس دن گزر چکے تھے کہ ایک رات مدینہ منورہ کے باہر کرز بن جابر جو اس وقت قریش کے سرداروں میں سے تھا، نے حملہ کیا اور وہاں موجود مسلمانوں کے کچھ چوپاوں کو چوری کرکے اپنے ساتھ ہانک کر لے گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے ہی خبر ملی، آپ علیہ السلام فوراً ۷۰ صحابہ کرام کے ساتھ اس کا تعاقب کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ انہوں نے بدر کے راستے سے لے کر مقام سفوان تک کا سفر کیا، لیکن کرز بن جابر ہاتھ نہ آیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہ پا سکے، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ منورہ لوٹ آئے۔
سفوان بدر کے قریب ایک علاقہ ہے، اس غزوہ کو بدر اولیٰ اور سفوان دونوں ناموں سے مشہور ہے، اس غزوے میں عَلَمبردار حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے، اور اس دوران آپ علیہ السلام نے مدینہ منورہ کے معاملات کو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کیے تھے۔
کرز بن جابر پہلے قریش کے سرداروں میں سے تھا، لیکن بعد میں اسلام قبول کرلیا اور عرینیین کے تعاقب اور سرکوبی کے لیے ۲۰ افراد پر مشتمل ایک گروہ کا امیر بھی رہ چکے ہیں۔
اخذ کردہ اسباق:
پہلا سبق:
ہم نے اب تک چار غزوات کا ذکر کیا ہے؛ ان غزوات میں صحابہ کرام نے دشمن کا پیچھا کرتے اور انہیں سکون سے سانس لینے کا موقع نہ دیا۔ اس دوران حضرت عبد اللہ بن جحش کا سریہ کفار کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا، اس سریہ میں کافروں کے تجارتی قافلے کے ایک محافظ عمرو بن الحضرمی کو قتل کیا گیا، وہ تاریخ اسلام میں پہلا مشرک تھا جسے صحابہ کرام کی جانب سے قتل کیا گیا، قافلے کے دو افراد کو قید کیا گیا اور تجارتی مال مدینہ لایا گیا۔ اس کے بعد ہی کفار نے مسلمانوں کی طاقت، حکمت اور تدبیر کو جانا۔
دوسرا سبق:
ان سرایا اور غزوات میں صحابہ کرام کی وفاداری اور شجاعت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوئی، حضرت عبد اللہ بن جحش کے سریے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک خط بھیجا اور فرمایا کہ دو دن کا سفر کرنے کے بعد اس خط کو کھولنا۔ انہوں نے ویسا ہی کیا، اور دو دن کے بعد جب خط کھولا تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے قافلے پر حملہ کرنے کی ہدایات دی تھیں۔
انہیں دو دن کے سفر کے بعد بھی اپنے امیر کی جانب سے اختیار دیا گیا۔ انہیں کہا گیا کہ اگر کوئی اس جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہتا تو وہ واپس آسکتا ہے، لیکن وفاداری، اطاعت اور عزم کے زیور سے آراستہ اس لشکر سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ ان میں سے کوئی فرد واپس جائے گا۔ اسی وفاداری اور عزم کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی دی، اور اسلام میں سب سے پہلی غنیمت اسی سریے کے دوران حاصل ہوئی۔
تیسرا سبق:
ان غزوات اور سرایا کی چند عظیم حکمتیں درج ذیل ہیں:
۱۔ مدینہ میں قائم ہونے والی نئی حکومت کا اندرون و بیرون میں رعب و دبدبہ قائم کرنا؛ کیونکہ اس نئی حکومت کے بیرونی دشمن قریش کی طرح اندرونی دشمن بھی تھے جیسے یہود، جو بہت چالباز اور فریب کار لوگ تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غزوات اور سرایا کے ذریعے انہیں بھی مرعوب کر دیا۔ ان پر یہ واضح کردیا کہ مدینے کی اسلامی حکومت ایک مضبوط اور طاقتور حکومت ہے، جو کبھی بھی غداروں اور اپنے مخالفین کو برداشت نہیں کرے گی۔
۲۔ اب تک غزوات کے دوران کئی قبائل کے ساتھ امن معاہدے بھی ہوئے، یہ وہ قبائل تھے جن کے قریش کے ساتھ تاریخی تعلقات تھے، تو ان کے بارے میں گمان تھا کہ مسلمانان مدینہ اور قریش مکہ کے درمیان جنگ میں وہ قریش کے معاون بنیں گے، مگر جب انہوں نے مدینہ کی اسلامی حکومت کے ساتھ معاہدے کیے تو قریش کی تجارتی راہ بھی خطرے میں پڑ گئی؛ اور ممکنہ حمایت کی توقع بھی ختم ہو گئی، جو کہ قریش کو اس علاقے میں تنہا کرنے کی ایک مؤثر کوشش تھی۔
۳۔ غزوہ سفوان کے ذریعے سرخ آنکھوں والے اور باغی بدو کو بھی ڈرادیا گیا جو راستے میں گزرنے والے تجارتی قافلوں سے رشوت لیتے تھے، جب کرز بن جابر نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفوان تک پیچھا کیا، یہ مقام مدینہ منورہ سے ۱۵۰ کلومیٹر دور ایک علاقے میں واقع ہے۔ اس سے بدوؤں سمجھ گئے کہ ریاستِ مدینہ اتنی طاقتور ہے کہ وہ اپنے علاقے سے ۱۵۰ کلومیٹر دور بھی کسی پر حملہ کرسکتی ہے۔
۴۔ ان تمام غزوات اور سرایا کو تربیتی غزوات بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ ان غزوات کے ذریعے صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی سے جنگ کے میدان میں آپ علیہ السلام کی حکمت عملی اور سیاست کے میدان میں ان کی بصیرت سے استفادے کا بھر پور موقع ملا؛ یہی وجہ ہے کہ بعد میں صحابہ کرام نے اسلام کا پیغام دنیا کے مشرق و مغرب کے چپے چپے تک پہنچایا، بہت سے وہ تاریک گوشے روشن کیے جہاں صدیوں سے جہالت اور ظلم کا بازار گرم تھا، تاریخ اسلام میں صحابہ کرام کے ہاتھوں اتنی عظیم فتوحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی ہی صحیح رہنمائی اور ارشادات کے باعث ممکن ہوئیں۔