غزوہ بدر الکبریٰ:
تاریخِ اسلام میں غزوہ بدر وہ پہلا غزوہ ہے جس میں جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہوئی، جس نے قریش اور ان کی شان و شوکت کو خاک میں ملادیا، یہ غزوہ کفر کی ذلت آمیز شکست کا آغاز تھا، جس کے بعد کبھی بھی کفار کے لشکروں نے ریاست مدینہ کے مقابلے میں کبھی بھی فتح حاصل نہیں کی اور نہ ہی اس کے بعد کسی بھی غزوے میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔
اب ہم غزوہ کے اسباب اور وجوہات پر بات کرتے ہیں:
مدینہ کی ریاست دن بدن ترقی کی راہوں پر گامزن تھی، مختلف قبائل سے معاہدے ہو چکے تھے، اس لئے وہ نسبتاً اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے تھے۔ اسی دوران قریش کا وہ قافلہ جو کچھ عرصہ پہلے شام کی طرف گیا تھا اور غزوہ عشیریہ میں لشکر اسلام سے بچ نکلا تھا، شام سے مکہ کی طرف واپس آ رہا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دن پہلے اس قافلے کی نقل وحرکت جاننے کے لیے دو صحابہ کرام طلحہ بن عبید اللہ اور عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بھیجا تھا، تاکہ وہ قافلے کی آمد سے متعلق معلومات لائیں، اس قافلے نے جیسے ہی مدینے کی جانب حرکت شروع کی، ان دونوں حضرات نے آپ علیہ السلام کو خبر پہنچائی۔
اس قافلے میں اہلِ مکہ کے کافی اموال تھے، اس میں پچاس ہزار دینار تھے، اس قافلے کے چالیس محافظ تھے، اس لئے ریاست مدینہ کے لئے اس قافلے کو پکڑنا ایک سنہری موقع تھا، یہی وجہ تھی کہ مدینہ سے راجح قول کے مطابق ۳۱۳ صحابہ کرام دو ہجری رمضان کی بارہ تاریخ کو روانہ ہوئے۔
اس قافلے کو گھیرنے کے لیے جنگ کے حوالے سے کوئی تیاری نہیں ہوئی تھی، کیونکہ مقصد قافلے کو پکڑنا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کرنے کے لیے ہر کسی کو اختیار دیا، کسی پر سفر لازم نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ کافی کم لوگ ساتھ گئے، ان کے خیال میں یہ غزوہ بھی دوسرے غزوات کی طرح بغیر کسی لڑائی کے ختم ہو جائے گا، اس لیے ان حضرات پر عتاب بھی نازل نہیں ہوا۔
مدینہ سے روانہ ہوتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیا، اور جب وہ روحاء نامی مقام پر پہنچے تو ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کو واپس مدینہ بھیجا تاکہ وہ مدینہ کے حکومتی امور کو سنبھالیں۔
قافلہ اور لشکرِ اسلام کا سازو سامان اور تیاری:
لشکرِاسلام میں ۳۱۳ سپاہی تھے، ان کے پاس دو گھوڑے اور ۷۰ اونٹ تھے، جن پر باری باری دو یا تین صحابہ کرام سوار ہوتے تھے، ابو لبابہ اور علی رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیادہ چلنے کی باری آتی تو وہ انہیں کہتے: اللہ کے رسول! آپ سواری پر سوار ہوں، ہم پیادہ چلیں گے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب ہوتا: تم لوگ پیادہ چلنے میں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو، اور مجھے تم سے زیادہ اجر اور ثواب کی ضرورت ہے۔
اس لشکر میں زیادہ تر صحابہ کرام انصار میں سے تھے؛ ۸۱، ۸۲، یا ۸۳ مہاجرین تھے۔ لشکر کا پرچم سفید تھا، اور لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، مہاجرین کا پرچم حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سنبھالا تھا، جبکہ انصار کا پرچم حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ لشکر کے میمنے(دائیں حصے) کے کمانڈر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے، میسرے (بائیں طرف) کے کمانڈر حضرت مقداد بن عمر رضی اللہ عنہ تھے، اور لشکر کے ساقے (پچھلے حصے) کے کمانڈر حضرت قیس بن صعصعة رضی اللہ عنہ تھے، عمومی قیادت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنبھالی ہوئی تھی۔
قریشی قافلے کا سردار ابو سفیان تھا، اور اسے آغازِ سفر میں ہی یہ یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی قافلے کو یرغمال بنائیں گے، اسی لئے وہ پورے راستے میں چوکنا تھا اور آںے جانے والے سے صحابہ کرام کے حوالے سے پوچھتا رہا تاکہ لشکرِ اسلام کی کمین و قبضے میں آنے سے بچ سکے۔ جب قافلہ حجاز پہنچا، تو معمول کے مطابق وہ محتاط تھے، چونکہ قریش اور ریاستِ مدینہ ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس لئے ایک دوسرے کے مالوں کو چھیننا کوئی نئی بات نہیں تھی۔
ابو سفیان نے اس وقت اپنی خفیہ اطلاعاتی نظام کو منظم کیا، اور اس کے نتیجے میں اسے اتنی خبر موصول ہوئی کہ ریاستِ مدینہ کا لشکر میرے قافلے کو قبضے میں لینے کے لیے مدینہ سے نکل چکا ہے۔ اس نے فورا سے ضمضم غفاری کو بہت ساری رقم کے بدلے مکہ بھیجا تاکہ قریش کو جلد دے جلد اطلاع دے کہ قافلہ خطرے میں ہے، اور اپنے مالوں کو بچانے کے لیے فوراً مدد کے لیے آجائیں۔
ضمضم جب مکہ پہنچا، تو عربوں کے معمول کے مطابق اس نے اپنے اونٹ کی ناک کاٹ دی، اپنی قمیص پھاڑ دی، اور کجاوہ اُلٹ کر اونٹ پر کھڑے ہوکر اس نے یہ اعلان کیا: قافلہ… قافلہ کو بچاؤ، محمد اور ان کے ساتھی قافلے پر حملہ کرنے جا رہے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ تمہارے لیے کچھ بچ سکے گا، مدد… مدد…”
قریشِ مکہ کی تیاری، ان شاء اللہ اگلی قسط میں…