غزوات النبی ﷺ اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق! دسویں قسط

ابو ریان حمیدی

اسلامی لشکر کے حوض پر قریش کے بعض افراد کا آنا اور ان کا قتل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی جانب سے تیار کردہ حوض پر لشکرِ کفار کے کچھ لوگ پانی پینے کے لیے آئے، مگر وہ سب مارے گئے، سوائے حکیم بن حزام کے جو وہاں سے بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوا۔ بعد میں اس نے اسلام قبول کیا۔

قبولِ اسلام کے بعد جب بھی وہ قسم کھاتے تو کہتے: مجھے اس ذات کی قسم ہے، جس نے بدر میں مجھے بچایا۔

ابو جہل کی مخالفت:

قریش نے عمیر بن وہب الجہمی کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ اسلامی لشکر کی تعداد اور حالت کا جائزہ لے۔ وہ اسلامی لشکر کے گرد چکر لگا کر واپس آیا اور کہا کہ لشکر تقریباً تین سو افراد پر مشتمل ہے۔ پھر اس نے مزید تحقیق کے لیے وادی میں جا کر کافی دیر تک گھوڑا دوڑایا تاکہ دیکھے کہ کہیں کوئی گھات یا اضافی مددگار تو موجود نہیں۔ جب وہ واپس آیا تو بولا:

یہ لشکر کسی گھات یا کمک کے بغیر ہے، لیکن اے قریش! میں نے ایسی بلائیں دیکھی ہیں جو موت کا پیغام لائی ہیں۔ مدینے کے اونٹ خالص موت لے کر آئے ہیں۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی نہیں مرے گا جب تک کہ وہ تم میں سے کسی کو قتل نہ کر لے۔ ان کی پناہ گاہ ان کی تلواریں ہیں اور ان کا راز ان کی تلواروں میں پوشیدہ ہے۔ پس اے قریش! خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔

عتبہ بن ربیعہ، حکیم بن حزام کی ترغیب اور مشورے پر قریش کے سامنے کھڑا ہوا اور انہیں واپس مکہ لوٹنے کی نصیحت کرنے لگا۔ اس نے کہا:

تم محمد اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کرکے کچھ حاصل نہیں کر سکتے، نہ ہی کوئی کارنامہ سرانجام دے سکتے ہو۔ گر تم انہیں قتل بھی کر دو، تو تم ایسے چہرے دیکھو گے جو تمہیں خوشی نہیں ہوگی۔ ہر شخص اپنے کسی نہ کسی عزیز—باپ، بھائی، چچا زاد یا قریبی رشتہ دار— کو قتل کر چکا ہوگا۔ پس بہتر یہی ہے کہ تم واپس چلے جاؤ اور محمد کو دوسرے عربوں کے مقابلے کے لیے چھوڑ دو۔

عتبہ نے حکیم بن حزام سے کہا: تم جاؤ اور ابو جہل سے کہو کہ ابن حضرمی کا حلیف میں ہوں اور میں اس کے تمام مال کا ضامن ہوں۔ (ابو جہل قریش کو بھڑکانے اور جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لیے بار بار ابن حضرمی کے قتل کا ذکر کرتا تھا۔)

جب حکیم ابو جہل کے پاس پہنچا اور اسے عتبہ کا پیغام دیا، تو ابو جہل کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس نے غصے سے کہا:

عتبہ ڈر گیا ہے! ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ اللہ ہمارے اور محمد کے درمیان آخری فیصلہ نہ کر دے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کا بیٹا (ابو حذیفہ) بھی ان کے ساتھ ہے، اسی وجہ سے تم لوگ ڈر رہے ہو۔

جب یہ باتیں عتبہ تک پہنچیں تو اسے بہت ناگوار لگیں۔ اس نے کہا:

ابو جہل کہتا ہے کہ میں خوفزدہ ہوں؟! یہ چوتڑوں پر خوشبو لگانے والا (ابو جہل) جلدی جان لے گا کہ خوف کس کے سینے میں بسا ہوا ہے!

 

ابو جہل نے یہ دیکھ کر کہ کہیں مخالفت زور نہ پکڑ لے، مقتول ابن حضرمی کے بھائی عامر بن حضرمی کو پیغام بھیجا کہ:

دیکھو، تمہارا حلیف (عتبہ) لشکر کو واپس لوٹانا چاہتا ہے، حالانکہ یہ انتقام لینے کا سنہری موقع ہے!

یہ سنتے ہی عامر نے اپنا کپڑا پھاڑا اور ننگا ہوکر لشکر میں چیخنا شروع کر دیا: وَا عَمْرَا! وَا عَمْرَا! ہائے عمرو! ہائے عمرو!

یہ چیخ و پکار سن کر قریش کے لشکر میں جوش و خروش پیدا ہوا، اور عتبہ کی عقلمندانہ باتیں سب بھول گئیں۔ جذبات نے عقل پر غلبہ پا لیا، اور جنگ کا ماحول مزید گرم ہو گیا۔

اسی دوران، مشرکین کی صفوں سے اسد بن عبد الاسد المخزومی آگے بڑھا اور قسم کھائی:

یا تو میں حوض سے پانی پیوں گا اور اسے ختم کردوں گا، یا پھر اسی راہ میں مارا جاؤں گا!

اس کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول کے شیر، حمزہ بن عبدالمطلب کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے ایک ہی ضرب لگائی اور اسد کو پیچھے گرایا۔ لیکن وہ پھر بھی حوض کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا رہا، یہاں تک کہ حمزہ کی دوسری ضرب نے اسے ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیا۔

دو بہ دو مقابلہ:

ابو جہل کے طعنے نے عتبہ کو مجبور کر دیا کہ وہ خود میدان میں اترے۔ اس نے اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کو ساتھ لیا اور لشکر سے باہر نکل کر للکارا:

هَلْ مِنْ مُبَارِز؟ کیا کوئی مقابلے کے لیے ہے؟

اسلامی لشکر کی صفوں سے تین انصاری صحابہ کرام—عوف، معوذ اور عبداللہ بن رواحہ—میدان میں آئے۔

مشرکین نے ان سے پوچھا: تم کون ہو؟

انہوں نے جواب دیا: ہم انصار میں سے ہیں۔

یہ سن کر مشرکین بولے: ہمیں تم سے لڑنے کی ضرورت نہیں۔ پھر انہوں نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے کہا:

محمد! ہمیں ہمارے اپنے قبیلے کے لوگوں میں سے مقابل بھیجو۔

رسول اللہ ﷺ نے آواز دی: حمزہ، علی اور عبیدہ بن الحارث! میدان میں نکلو!

یہ تینوں حضرات آگے بڑھے۔ چونکہ انہوں نے نقاب پہنے ہوئے تھے، اس لیے مشرکین نے پوچھا: تم کون ہو؟

انہوں نے اپنا تعارف کرایا، تو مشرکین نے کہا: تم ہماری ٹکر کے معزز حریف ہو!

عبیدہ ان دونوں حضرات سے عمر میں بڑے تھے، لہذا وہ عتبہ کے مقابلے میں جبکہ حمزہ شیبہ اور علی ولید کے مقابلے میں آئے۔ جنگ کا آغاز ہوا، علی اور حمزہ نے برق رفتاری سے اپنے حریفوں کو قتل کر دیا۔ جبکہ عبیدہ اور عتبہ کے درمیان سخت مقابلہ جاری رہا، دونوں شدید زخمی ہوئے، یہاں تک کہ عبیدہ کی ٹانگ کٹ گئی۔

علی اور حمزہ فوراً آگے بڑھے، عتبہ کو قتل کیا اور عبیدہ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔

عبیدہ بن حارث لڑائی میں شدید زخمی ہوئے اور چوتھے یا پانچویں دن، مدینہ کی طرف واپسی کے دوران صفراء کے مقام پر جامِ شہادت نوش کیا۔

اللہ تعالیٰ نے اس عظیم معرکے کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان فرمایا:

’’هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُم ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ‘‘ (الحج: 19)

ترجمہ: یہ دو گروہ ہیں جو اپنے رب کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے ہیں، پس وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، ان کے لیے آگ کے لباس تیار کیے گئے ہیں، اور ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔

جب عبیدہ کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے لایا گیا، تو انہوں نے سوال کیا:

یا رسول اللہ! کیا میں شہید ہوں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: أشهد أنک شهید! میں گواہی دیتا ہوں کہ تم شہید ہو!

اس مبارک لمحے میں، عبیدہ نے اپنے آخری اشعار یوں کہے:

فَإِن یَقطَعُوا رِجْلِي فَإِنِّي مُسْلِمٌ

أَرْجُو بِهِ عِیشاً مِّنَ اللَّهِ سَالِمَا

وَأَلْبَسَنِي الرَّحْمٰنُ مِنْ فَضْلِهِ

لِبَاسًا مِّنَ الإِسْلَامِ غَطَّی المَسَاوِیَا

ترجمہ: ’’اگر وہ میری ٹانگ کاٹ بھی دیں تو کوئی پروا نہیں، میں مسلمان ہوں۔

اس کے بدلے میں، میں اللہ سے عافیت بھری زندگی کی امید رکھتا ہوں۔

رحمن نے اپنے فضل سے مجھے اسلام کا ایسا لباس پہنایا ہے،

جس نے میرے تمام عیبوں کو چھپا دیا ہے۔‘‘

Author

Exit mobile version