غزوہ بدر سے حاصل ہونے والے اسباق کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے، آج ہم چند مزید اسباق اور دروس آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
14. تضرع اور خشوع کی اہمیت
ہم سب بندے ہیں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اور ہر مشکل و آسان حالات میں اس کی نصرت کے محتاج ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ فتح مسلمانوں کی ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی بشارت دی گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے صحابہ کرام کو کافروں کے سرداروں کے قتل کے مقامات بتائے کہ فلاں یہاں اور فلاں وہاں قتل ہوگا۔ لیکن اس یقین کے باوجود، آپ نے رات بھر ایک چھوٹے سے خیمے میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھائے رکھے اور نصرت کی دعا مانگتے رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عبودیت کا تقاضا یہی ہے کہ ہر حال میں اللہ سے مدد مانگی جائے۔ انسانیت اور بشریت کو بھی اسی عبودیت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
عبودیت مخلوق کا سب سے عظیم وصف ہے۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس پر رسالت سے زیادہ فخر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صحابہ کرام سے فرماتے تھے: "کہو کہ وہ اللہ کا بندہ اور رسول ہے۔”
دوسری طرف، یہی عبودیت اللہ تعالیٰ کو بھی دیگر صفات سے زیادہ پسند ہے۔ عبودیت کی بنیاد پر ہر دعا اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فرماتا ہے:
"إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ” [سورة الأنفال: 9]*
ترجمہ: جب تم نے اپنے رب سے فریاد کی، تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ بے شک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک کے بعد ایک آئیں گے۔
ابوجہل، جس نے عبودیت کی چادر چھوڑ دی تھی اور تکبر کی راہ اپنائی تھی، اس نے دنیاوی یا اخروی کوئی خیر حاصل کیا؟ اس نے مغرورانہ انداز میں کہا تھا کہ ہم بدر جائیں گے، اونٹ ذبح کریں گے، لوگوں کو کھانا کھلائیں گے، ناچ گانے کے محافل سجائیں گے تاکہ عربوں میں ہماری دبدبہ کی باتیں پھیلیں۔ لیکن یہ غرور اس لیے تباہ ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہ تھا، کیونکہ کبریائی اس کی صفت ہے جو دوسروں پر بھاری اور گراں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی تکبر اور سرکشی خالص عبودیت سے ٹکرائی، تو میدان عبودیت نے جیتا، کیونکہ اللہ نے اس کی نصرت فرمائی۔
15. غزوہ بدر میں چند معجزات کا ظہور
غزوہ بدر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند معجزات ظاہر کیے۔ ان میں سے ایک معجزہ کافروں کے قتل کے مقامات کی پیشین گوئی تھی۔ اگرچہ یہ ظاہری طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ انبیاء کو علم غیب حاصل تھا، لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ انبیاء سمیت کوئی مخلوق غیب کا علم نہیں رکھتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ” [سورة النمل: 65]
> ترجمہ: کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا سوائے اللہ کے، اور وہ نہیں جانتے کہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔
اسی طرح فرمایا:
"وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ” [سورة الأنعام: 59]*
ترجمہ: غیب کی کنجیاں صرف اسی کے پاس ہیں، کوئی اسے نہیں جانتا سوائے اس کے، اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے۔
لیکن انبیاء کرام کو وحی کے ذریعے بعض غیبی امور کا علم دیا گیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے انہیں کچھ غیبی باتوں کا علم عطا کیا، اور یہی ان کے معجزات بنے تاکہ وہ اپنی نبوت کی تصدیق کریں اور دیگر مخلوقات سے ممتاز ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا:
"وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ” [سورة الأنعام: 179]*
ترجمہ: اللہ ایسا نہیں کہ تمہیں غیب کا علم دے، لیکن وہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے چن لیتا ہے (اور اسے غیب کا علم دیتا ہے)۔
اسی طرح فرمایا:
"عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ” [سورة الجن: 26-27]
ترجمہ: وہ (اللہ) غیب کا عالم ہے، وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جسے وہ پسند کرے۔
مفسرین نے اس آیت کے تحت لکھا کہ بعض انبیاء کرام کو علم غیب دیا گیا تاکہ یہ ان کا معجزہ بنے۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ” [سورة آل عمران: 49]
ترجمہ: اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں کیا ذخیرہ کرتے ہو۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ باتیں معجزے کے طور پر کہیں۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے امیہ بن خلف، عباس بن عبدالمطلب کے خزانے، اور دیگر کافروں کے قتل کے مقامات بتائے تھے۔