مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام مسائل میں اپنے دینی اقدار واصول سے رہنمائی حاصل کریں، اس بناء پر میں زیر نظر مسئلے میں قرآن کی طرف رجوع کرتا ہوں تاکہ استعمار کی حقیقی اور صحیح تشریح و تعریف کرسکوں۔
قرآن کریم استعمار کے لیے ایک خاص اصطلاح استعمال کرتا ہے جو استعمار کے مختلف شعبوں، اجزاء پر مشتمل ہے۔
قرآن کریم نے لفظ "استضعاف” کا استعمال کر کے عسکری، فکری اور سیاسی استعمار کا ایک جامع مفہوم عطا کیا ہے جس کا معنی کسی فرد یا معاشرے سے سوء استفادہ کیا جائے۔
دوسری طرف قرآن کریم نے مستضعفین کو کامیابی و کامرانی کی نوید بھی سنائی ہے کیونکہ اگرچہ یہ لوگ طاقتور ہیں لیکن وقتی طور پر دشمن کے پریشر اور اس کی چالوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کوشش میں ہیں کہ کسی طرح استعمار سے جان چڑھائی جائے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
"ہم نے طے کر رکھا ہے کہ انہیں زمین کا مالک اور وارث بنائیں گے”.
لغت میں استعمار کا معنی آباد کرنے کے آئے ہیں مگر عملا آج کی دنیا میں کسی معاشرے کی اجتماعی روایت پسندی، اس کی اقدار و عادات کو مسخ کرنے، انہیں اپنے دام میں گھیر کر ان سے اور ان کے وسائل کا استحصال کرنے کا نام ہے۔
استعماری فکر میں دیگر افراد سے اپنے ناجائز فائدے حاصل کرنا ایک جزء لاینفک اصول ہے۔
استعماری ممالک اپنے مفادات کے حصول کے لیے ظاہرا غرباء و مساکین کے لیے خوشنما نعرے اور منصوبے پیش کرتے ہیں لیکن پس پردہ ان کا مقصد صرف اور صرف کمزور قوموں کا استحصال جبکہ طاقتور، زبردست اقوام کو مزید طاقت و قوت فراہم کرنا ہے۔
ہر وہ قوم جو استعمار کے قبضے میں ہو وہ کبھی بھی سیاسی، اقتصادی طور پر اور تہذیب و تمدن میں ترقی نہیں کرسکتی کیونکہ وہ کسی بھی معاملے میں خود کفیل نہیں ہوسکتی، مزید برآں استعمار ان ممالک کے قدرتی ذخائر کو بھی اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور ہر طرح سے کوشش کرتا ہے کہ اپنے زیر اثر ممالک میں اپنی تہذیب و ثقافت کو فروغ دے۔
اس کے نتیجے میں زیر تسلط ممالک اور ان کی عوام استعمار کی تہذیب وثقافت، بول چال، زبان و بیان غرض ہر ہر قدم پر ان کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔
آج بھی دنیا میں اس قسم کا استعمار موجود ہے اور بہت سے ممالک ان کے نرغے میں ہیں۔
استعمار کی خصوصیات
در اصل استعمار تین پردوں میں چھپ کر وار کرتا ہے، ان کا جاننا نہایت ضروری ہے تاکہ ان کے ذریعے اصل استعماری فکر اور حقیقت کو جانا جا سکے۔
استعمار کو تین طریقے سے پہچانا جاسکتا ہے:
- قوم کی سوچ و فکر کو ختم کرنا: استعماری منصوبے کا پہلا اصول قوم وملت کے ذہنوں سے آزاد خیالات و تصورات ختم کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ استعمار کے زیر اثر اقوام میں مفکرین اور ذہین لوگوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
- صنعتی، زرعی، اسلحہ سازی ودیگر تمام شعبوں میں خود کفالت کو ختم کرنا۔
- تفرقہ، اختلافات اور طبقاتی نظام کو فروغ دینا۔
جاری ہے۔۔۔