افغانستان ایک ایسا جامع معاشرہ ہے جو اپنے اندر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو سموئے ہوئے ہے۔
اب یہاں ایک آزاد و خودمختار حکومت اور نظام کا قیام عمل میں آیا، اس لیے علاقائی اور بین الاقوامی شرپسند عناصر اسے برداشت نہیں کر پا رہے، اس مقصد کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ اس حکومت کو بدنام اور ختم کر دیا جائے۔ اس حوالے سے تازہ مثال گذشتہ روز دائے کنڈٰی صوبے میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ داعش کی مزاحمت بالکل ختم ہوچکی ہے، اب یہ لوگ دوبارہ منظم ہونے اور حملوں کی سکت نہیں رکھتے لیکن افغانستان کے داخلی اور عالمی مخالفین انہیں دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے شرپسندی اور تخریب کاری کر کے اسے داعش کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔
دین اسلام، مسلمان اور اسلامی نظام کبھی بھی کسی مذہب یا فرقے کے خلاف نہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ عوام یا تو مسلمان ہوں یا پھر پر امن شہری بن کر رہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچائیں یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام میں مستامن، ذمی اور محارب یعنی جنگ کرنے والے کے جدا جدا تفصیلی احکامات موجود ہیں۔
یہاں شیعہ مکتب فکر کے مذہب و عقائد سے بحث کرنا مقصود نہیں، یہ لوگ اب ایک اسلامی نظام کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں لہذا ان کے اموال، جان اور عزت تمام مسلمانوں کے لیے حرام ہیں اور کسی کو بھی یہ اختیار نہیں کہ ان سے کسی بھی لحاظ سے تعرض کریں۔
یہاں مقاومت کے نام سے ایک منحوس گروہ جو اسلامی نظام، حدود اللہ اور قصاص کے خلاف ہیں، اسلامی نظام کے خاتمے کی کوششیں کررہے ہیں، وہ حکومت کو بدنام کرنے کے لیے حکومت اور خصوصا اھل السنۃ والجماعت کو متعصب اور خود غرض باور کروا رہے ہیں، یہ لوگ ایسے پروپیگنڈے کرتے نظر آتے ہیں کہ افغانستان میں اھل السنۃ والجماعت کے علاوہ کسی مکتب فکر اور مذہب کی کوئی جگہ نہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں سنی، شیعہ، ہندو اور دیگر بہت سے ادیان کے ماننے والے اسلامی نظام کے سائے میں پرامن زندگی گزاررہے ہیں، امارت اسلامی ان تمام ادیان کے ماننے والوں کو چاہے وہ ذمی ہوں یا مستامن اور مسلمان، اسلام کے عطا کردہ حقوق کی پاسداری کررہے ہیں اور ان کی جان، مال، عزت و آبرو کو محفوظ رکھنے کی ضمانت دیتے ہیں۔
ہمارے داخلی و بیرونی مخالفین جان لیں کہ وہ کبھی بھی افغانستان میں اقلیت یا اکثریت کے نام پرمسائل کھڑے کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ان شاء اللہ