مشرقی افریقہ اور اسلامی نظام کے قیام میں رکاوٹ (داعش)

✍️ عثمان احمد زئی

اکیسویں صدی کے آغاز میں تمام ممالک نے طاقت کے حصول کی خاطر بعض چیزوں پر اپنی توجہ مرکوز کی، جیسے ہائی ویز، قدرتی وسائل اور افرادی قوت وغیرہ۔

یورپ جو افریقہ کے غریب ممالک کے ذخائر کے ذریعے آج اس مقام تک پہنچا ہے اب بھی چاہتا ہے کہ خام مواد کے لیے افریقہ اس کے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔

لیکن وہاں اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں مشرقی افریقہ کی یورپ سے نجات اور وہاں اسلامی نظام کے قیام کے لیے الشباب نامی ایک گروہ قائم ہوا اور اس نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

اس کی سرگرمیوں کا اصل مقصد افریقہ پر قبضہ کرنے والوں کو وہاں سے نکالنا اور وہاں اسلامی نظام کا قیام تھا۔ لیکن تمام یورپی ممالک، امریکہ اور چین کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ افریقہ اب ہمارے ہاتھوں سے نکلنے کو ہے، تب انہوں نے الشباب کی سرگرمیوں کے آگے بند باندھنے کے لیے بہت سے طریقے آزمائے لیکن سب بے نتیجہ ثابت ہوئے۔

بالآخر انہوں نے داعش کے نام سے تشکیل دیا جانے والا انٹیلی جنس پراکسی گروپ وہاں بھی کھڑا کر دیا تاکہ الشباب کو کمزور کیا جائے اور وہ افریقہ کے مشرقی علاقوں (صومالیہ، ایتھوپیا، یوگنڈا اور کینیا) میں موجود تیل، گیس، سونے، یورینیم اور دیگر قیمتی معدنیات سے محروم نہ ہو جائیں۔

اس وقت جب الشباب خطے میں فتح کی دہلیز پر کھڑی ہے تو اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والا یہی انٹیلی جنس پراکسی گروپ ہے جو یہود کی معاشی برتری کی خاطر وہاں اسلامی نظام کے قیام کا راستہ روک رہا ہے۔

اگر اس خطے میں اسلامی نظام قائم ہو گیا اور یہ خطہ الشباب کے ہاتھ آ گیا تو افریقہ کے ایک بہت اہم حصے میں ہمارے پاس اسلامی نظام ہو گا، یہ خطہ اسٹریٹیجک اعتبار سے انتہائی اہمیت اور کثیر تعداد میں معدنیات کا حامل ہے۔

خام مواد کے لیے یورپی یونین، امریکہ اور چین کو اس خطے کی اشد ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی نظام کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں اور اس خطے کی معدنیات کو لوٹنے کی خاطر انہوں نے داعش نامی انٹیلی جنس پراکسی گروپ تشکیل دیا اور اس کی فنڈنگ کر رہے ہیں۔

Author

Exit mobile version