میرا شوہر مجرم تھا اور اس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے: زوجہ بغدادی

ام حذیفہ داعشی خوارج کے پہلے مزعوم خلیفہ ابو بکر بغدادی کی بیوہ ہے جو ۲۰۱۸ء میں ترکی سے گرفتار ہوئی اور گزشتہ فروری میں عراق کے حوالے کر دی گئی۔ ام حذیفہ اب عراق کے ایک جیل میں بغدادی کے ساتھ جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں زیر تفتیش ہے۔ ام حذیفہ نے بی بی سی کو دیے گئے اپنے تازہ انٹرویو میں اپنے خاوند، اس کے ساتھ زندگی اور اپنے خاندان کی تباہی کے حوالے سے بتایا۔

۲۰۱۴ء کی گرمیوں میں جب داعشی خوارج نے عراق کے علاقوں پر قبضہ کیا اور جنگجو ان کے ساتھ سخت جنگیں لڑ رہے تھے، ام حذیفہ کے بقول، اس وقت ابو بکر بغدادی اپنے گھر میں سکون سے بیٹھا تھا، اس نے کسی جنگ یا جھڑپ مٰں حصہ نہیں لیا۔ جب موصل پر قبضہ ہو گیا، اس وقت بغدادی رقہ میں تھا، اور بعد میں موصل چلا گیا اور وہاں کی جامع مسجد میں اس نے خود کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا۔

اس مزعوم خلافت کے اعلان کے ساتھ ہی خوارج کے مظالم میں بھی تیزی آ گئی، اور انہوں نے تمام انسانی و اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظالم کا ارتکاب کیا۔ ام حذیفہ کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے خاوند سے ان "غیر انسانی اور انسانیت کی حدوں سے نکلتے ہوئے مظالم” کے بارے میں بحث کرتی تھی اور خود داعش کے جرائم کی تصویریں نہیں دیکھ سکتی تھی۔

ام حذیفہ کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے خاوند سے کہا کہ "تمہارے ہاتھ بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگین ہیں” اور اسلام نے قتل کے علاوہ لوگوں کی ہدایت کے لیے دیگر راستے بھی سکھائے ہیں۔

بغدادی نے اپنی حفاظت کی خاطر اپنی کم عمر بچیوں کی شادیاں کر دی تھیں۔ ام حذیفہ کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۴ء میں اپنے ساتھ خلیفہ کا لقب لگا لینے کے بعد بغدادی نے اپنی بارہ سالہ بیٹی امیمہ کو منصور نامی ایک شخص کے نکاح میں دے دیا۔ منصور بغدادی کا قریبی ساتھی تھا اور اسے خاندان کی حفاظت و دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی کیونکہ بیٹی کا خاوند ہونے کی وجہ سے وہبا آسانی بغدادی کی غیر موجودگی میں گھر آ جا سکتا تھا۔

یزیدی لڑکیوں کو باندی بنانا

داعشی خوارج نے عراق کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے ساتھ ہی ہزاروں یزیدی لڑکیوں اور عورتوں کو باندی بنا لیا جنہیں بعد میں جنسی تسکین، تجارت اور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔

ام حذیفہ کا کہنا ہے کہ منصور امیمہ سے نکاح کی کچھ مدت بعد اس کے گھر ۹ یزیدی لڑکیاں لے آیا جن کی عمریں ۹ سے ۳۰ سال کے درمیان تھیں۔ ام حذیفہ کا کہنا ہے کہ وہ یہ دیکھ کر سخت شرمندہ ہوئی۔

ان ۹ لڑکیوں میں ثمر اور زینا کے فرضی ناموں والی دو لڑکیاں بھی تھیں۔ بی بی سی والے ثمر کے والد حامد کو ڈھونڈ لائے۔ حامد کا کہنا تھا کہ اس کی دو بیویاں اور ۲۶ بچے ہیں۔ داعشیوں نے سنجار کے علاقے خانصور پر حملہ کرنے کے بعد اس کی بیویاں، بچے اور دو بھائیوں سمیت پورے خاندان کو اغوا کر لیا۔

اب بھی حامد کے ۶ بچے (ثمر سمیت) لاپتہ ہیں اور ان کی کوئی خبر نہیں، دیگر بچوں اور رششتہ داروں کو یا تو داعشیوں سے چھڑوا لیا گیا یا پیسے دے کر آزاد کروا لیا گیا۔ زینا جو حامد کی بھتیجی ہے اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اب بھی شمالی شام میں قید ہے۔ زینا کی بہن سود کو بھی داعشیوں نے اغوا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور داعشیوں نے اپنے درمیان اسے سات بار فروخت کیا۔

حامد اور سود نے ام حذیفہ پر الزام لگایا کہ وہ بغدادی کے ساتھ اس کے جرائم میں شریک تھی۔ ام حذیفہ اس حوالے سے کہتی ہے:

"میں یہ نہیں کہتی کہ میرا شوہر مجرم نہیں تھا، ان (سود اور دیگر یزیدی لڑکیوں) کے ساتھ جو کچھ ہوا مجھے اس پر بہت افسوس ہے۔”

بغدادی کا خاندان بھی، اس کی اور اس کے اسلحہ برداروں کے قربان ہونے والے خاندانوں کی طرح منتشر اور تباہ ہو گیا۔ ام حذیفہ کی بڑی بیٹی امیمہ اس کے ساتھ جیل میں ہے۔ ۱۲ سالہ بیٹی فاطمہ بچوں کی جیل میں رکھی گئی ہے، ایک بیٹا شام میں حمص کے نزدیک روسیوں کے ایک فضائی حملے میں مارا گیا، دوسرا اپنے باپ کے خود کو پھاڑنے کے سبب سرنگ میں ایک اور بچے سمیت ہلاک ہوا، اور سب سے چھوٹے بیٹے کو یتیم خانے میں رکھا گیا ہے۔ بغدادی کی بیوی کی سب سے بڑی خواہش اب اپنے چھوٹے بیٹے کے حوالے سے معلومات حاصل کرنا ہے۔ بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ جب انٹرویو کے بعد سکیورٹی کا فرد ام حذیفہ کو اپنے ساتھ لے گیا، تو وہ ان سے التجا کر رہی تھی کہ اس کے چھوٹے بیٹے کے حوالے سے کچھ اطلاع اسے دے دیں۔

Author

Exit mobile version