داعشی خوارج کے غیر قانونی مالی ذرائع کا طریقہ کار
اسلامی خلافت کے نام پر داعشی خوارج کے ظہور کے ابتدائی دنوں میں، بے شمار مسلمان علم کی کمی، ان کی ظاہری دینداری اور گمراہ کن نعروں سے متاثر ہو گئے۔
اسی وجہ سے، بے شمار مالی اور انسانی امداد دردِ دل رکھنے والے مسلمانوں کی طرف سے اس گروہ کو بھیجی گئی، یہ جانے بغیر کہ یہ امداد اقامتِ دین کی راہ میں نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی خاطر ہو گی، جس سے فساد اور ظلم کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔
داعش، جو کہ خوارج کے سابقہ سلسلوں کا ہی تسلسل ہے، عوامی ذرائع سے کٹنے کے بعد، اپنی بقا کے لیے غیر قانونی اور ناپاک طریقوں کی طرف متوجہ ہوئی، جن میں سب سے اہم طریقے اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری تھے۔ بین الاقوامی بااعتماد رپورٹس کے مطابق، صرف ۲۰۱۴ء میں اس گروہ نے اغوا برائے تاوان سے تقریبا ۲۵ ملین ڈالر آمدنی حاصل کی۔
حالیہ سالوں میں بھی یہ طریقہ ان کی آمدنی کے اہم ذرائع میں سے شمار ہوتا ہے اور صرف عراق کے صوبے دیالہ میں، اپنے خفیہ نیٹ ورکس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، متاثرین اور ان کے خاندانوں سے سینکڑوں ہزاروں ڈالر وصول کیے۔
داعشی خوارج کے دورِ حکومت میں، نہ صرف علاقے کے لوگوں کی زندگی خطرے سے دوچار تھی، بلکہ علاقے کے ثقافتی اور تمدنی ورثے کو بھی سخت نقصان پہنچا۔
دورِ حاضر کے یہ خوارج، باوجودیکہ خود کو بت شکن اور شرکیہ شعائر کے مخالف ظاہر کرتے تھے، عملاً مجسموں کو تباہ کرنے کی بجائے ان کی فروخت کو ترجیح دیتے تھے اور قدیم آثار کی چوری اور لوٹ مار کرتے تھے۔
اس مدت میں جب خوارج کا تاریک سایہ اسلامی شہروں پر چھایا ہوا تھا، وہ اسلامی ممالک کے تاریخی آثار اسمگلروں کے حوالے کرتے تھے، تاکہ وہ انہیں ترکی کے راستے یورپی بازاروں تک پہنچائیں اور اس ذریعے سے سینکڑوں ملین ڈالر کمائیں۔
اس گروہ نے اپنا دوغلہ پن تب واضح کیا، جب ایک طرف تو وہ کفر کے خلاف جنگ میں مغرب کو دشمن کہتا تھا اور اس کے ساتھ ہر قسم کے معاملے کو حرام قرار دیتا تھا، لیکن دوسری طرف، جب اسے مالی مشکلات پیش آتیں، تو انہی ممالک کی طرف ہاتھ بڑھاتا اور ان کے ساتھ تجارت کرتا تھا۔
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کے آخری ایام میں انہوں نے شام کے منبج شہر میں ایک باقاعدہ "نوادرات کے امور کا محکمہ” قائم کیا تھا، تاکہ قدیم آثار کی فروخت اور منتقلی کو ایک منظم شکل دی جا سکے۔
آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ داعش خوارج نے اپنے ناپاک وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ہر وسیلہ – خواہ جائز ہو یا ناجائز – استعمال کیا، مگر الہی سنت اس پر قائم ہے کہ ظالم اور مفسد، اگرچہ مختصر وقت کے لیے کامیابی حاصل کر لیں، لیکن ان کا انجام رسوائی اور بربادی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ” (سورۃ یونس: ۸۱)
"بیشک اللہ تعالیٰ مفسدین کے کاموں کی اصلاح نہیں کرتا۔”