گزشتہ روز افغانستان کے لیے چین کے مندوب یو ژیاؤ یونگ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان میں تقریباً بیس مسلح یا شدت پسند گروہ فعال ہیں جن سے چین کو سکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔
چینی مندوب کا یہ بیان پاکستان کے دورے کے دوران سامنے آیا۔ پاکستان کے انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون (Express Tribuneّّ) کے مطابق یو ژیاؤ یونگ نے بروز پیر اسلام آباد کا دورہ کیا اور وہاں پاکستانی حکام نے اس کے سامنے ایسی دستاویزات پیش کیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ کس طرح افغانستان خطے کے امن کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
اگر چینی مندوب کے اس بیان کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ چین کا رسمی مؤقف نہیں بلکہ یہ پاکستانی حکومت اور اداروں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات، جھوٹے شواہد اور بریفنگ کے بعد اس کی ذاتی رائے ہے جس کا اظہار اس نے اپنی باتوں میں کیا ہے۔
اب یہ ایک واضح بات ہے کہ پاکستان افغانستان کے خلاف جاری پروپیگنڈہ مہم کے ذریعے اپنے اہداف کا حصول چاہتا ہے، جن میں سے ایک ہدف یہ بھی ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر چین کی حمایت حاصل کرے۔
بلوچستان میں جاری جنگ کی وجہ سے پاکستان کے اندر چین کے معاشی منصوبے خطرے میں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج اندرون ملک چینی شہریوں کی حفاظت میں بھی ناکام رہی ہے۔ اس ناکامی کو دیکھتے ہوئے چینی حکام نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے اپنی سکیورٹی فورسز تعینات کرے اور اگر چینی فوج پاکستان میں تعینات ہو جاتی ہے تو یہ پاکستانی فوج کی ساکھ کے لیے شدید نقصان کا باعث ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان چین کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ سارے مسئلے افغانستان کی جانب سے کھڑے کیے جا رہے ہیں، اس لیے کبھی چین کو، کبھی اقوام متحدہ اور امریکہ کو ایسی بے بنیاد رپورٹس پیش کی جاتی ہیں۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان پر چین سے متعلق لگائے گئے الزامات اس لیے بے بنیاد ہیں کیونکہ بلوچستان میں جاری کشیدگی پاکستان کی داخلہ پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ بلوچستان کی خود مختاری کی تحریک تقریباً تقریباً دو عشروں سے جاری ہے، جبکہ امارت اسلامیہ تین سال پہلے اقتدار میں آئی ہے۔
دوسرا یہ کہ پاکستان نے اب تک اپنے دعووں کی تائید کے لیے کوئی معتبر شواہد پیش نہیں کیے ہیں۔ نہ پاکستان اور نہ ہی چین ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتا جس سے ثابت ہوتا ہو کہ افغانستان کی سرزمین چینی مفادات کے خلاف استعمال ہو ئی ہے۔
اگر چین افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے بے بنیاد دعووں پر کان دھرتا ہے تو اس کا نقصان براہ راست چین کی خارجہ پالیسی کو ہو گا، کیونکہ پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی پراکسی جنگ کے لیے چین کا تعاون حاصل کر لے اور اس سے چین کی غیر جانبدارانہ پالیسی کو نقصان پہنچے گا۔
چین کو افغانستان کے حوالے سے اپنا مؤقف آزادانہ طور پر طے کرنا چاہیے اور فقط پاکستان کی باتوں کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان خراب تعلقات اور پاکستان کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر چلائی جانے والی پروپیگنڈہ مہم دونوں ملکوں کے درمیان شدید عدم اعتماد ظاہر کرتی ہے، اس لیے بہتر یہ ہو گا کہ چین افغانستان کے حوالے سے ہر طرح کے الزامات کی تصدیق کے لیے دیگر آزاد و خود مختار ذرائع کا استعمال کرے، یا افغانستان کے ساتھ ڈپلومیٹک چینلز کو مزید مضبوط کرے اور ان کے ذریعے براہ راست بات چیت کرے۔
چینی حکام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان نے 9/11 کے واقعہ کے بعد اپنے اقتصادی مفادات کی خاطر امریکہ کی جنگ میں خود کو کرایے پر دے دیا۔ جب امریکہ افغانستان میں ناکام ہو گیا اور یہاں سے انخلاء کر گیا تو اب پاکستان کی کوشش ہے کہ اپنی خراب ہوتی معیشت کو سنبھالنے کے لیے چین کو اس پراکسی جنگ میں گھسیٹ لائے۔
چینی حکام کو پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ بے بنیاد معلومات کے حوالے سے ایسے دعوے اور بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے جو زمینی حقائق کے خلاف ہوں، یہی تمام فریقوں کے لیے مفید ہو گا۔