محمد نعمان
پاکستان افغانستان کے ساتھ کیے گئے اپنے تمام جرائم کے باوجود اب بھی یہ سمجھتا ہے جیسے افغانستان اس کا بہت زیادہ احسان مند اور مقروض ہو۔ خصوصا افغانستان پر سابقہ سوویت حملے کے بعد افغان مہاجرین کو سنبھالنا وہ اپنا بہت بڑا احسان گردانتا ہے۔ لیکن حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔
درحقیقت پاکستان کو افغانستان اور افغانیوں کا احسان مند ہونا چاہیے اور ان کا احسان تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ اگر افغانی سویوت یونین کے خلاف کھڑے نہ ہوئے ہوتے، تو اس وقت پاکستان دنیا کے نقشے اور جغرافیہ سے ختم ہو چکا ہوتا، کیونکہ پاکستان کسی بھی طور پر سوویت یونین کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کے حوالے سے بارہا دنیا سے مراعات حاصل کی ہیں۔ انہوں نے افغان مہاجرین کے نام پر جو بھی عطیات اور امداد حاصل کیں، ان کا دس فیصد بھی افغان مہاجرین کو ادا نہیں کیا بلکہ اپنی جیب میں ڈال لیا۔
اس کے ساتھ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے دوران بھی مجاہدین کے لیے جو بھی امداد آتی، وہ پاکستان کے راستے آتی، اور پاکستان اپنے پرانے اور ناکارہ شدہ ہتھیار افغان مجاہدین کو دے دیتا اور افغان مجاہدین کے نام پر آنے والے ہتھیار یا تو اپنے فوجیوں کے حوالے کر دیتا یا پھر زخیرہ کر لیتا۔
مختصر یہ کہ پاکستان نے اپنی ستر سال سے زیادہ کی تاریخ میں ایسا کوئی کارنامہ یا احسان نہیں کیا کہ جس میں افغانیوں کے لیے کوئی بھلائی ہو۔ پاکستان کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس نے آغاز سے لے کر آج تک افغانستان کے خلاف سازشیں بنی ہیں۔ ہر لمحہ افغانستان کو تباہ کرنے کی سازشیں بنتا رہا۔ اس نے کبھی بھی افغانستان کی بھلائی نہیں چاہی اور نہ ہی اب چاہتا ہے۔
افغانستان دنیا یا پاکستان سے کوئی کارنامہ نہیں چاہتے۔ افغانستان کا کہنا بس یہ ہے کہ پاکستان خطے میں بد امنی کو برقرار رکھ رہا ہے، اور یہ نہ صرف افغانستان، بلکہ خطے اور پوری دنیا کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک عظیم خطرہ ہے۔ افغانستان کا مطالبہ یہ ہے کہ یا تو پاکستان اپنی مرضی سے ایسی مذموم حرکتوں سے باز آجائے یا پھر دنیا پاکستان پر دباؤ ڈالے کہ پاکستان اپنا چلن تبدیل کرے۔
نوٹ: مندرجہ بالا مضمون مصنف کی اپنی رائے ہے۔