خوارج اسلام کی تاریخ میں ایک طویل اور انتہا پسند ماضی رکھتے ہیں، اس گروہ نے اپنے سخت نظریات کی وجہ سے مسلمانوں کے اتفاق اور اتحاد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے باطل عقائد کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھائی، جس کے نتیجے میں مسلمان نہ صرف جانی نقصانات سے دوچار ہوئے بلکہ شدید اقتصادی اور سماجی مشکلات کا بھی سامنا کیا، اسلام کے ابتدائی ادوار میں اموی خلافت کے بعد، عباسی خلافت کے خلاف خوارج نے مختلف علاقوں میں بغاوتیں کیں۔
ہارون الرشید کی خلافت میں خوارج نے خاص طور پر خراسان، عراق اور فارس کے بعض علاقوں میں بغاوتیں کیں، وہ عموماً مرکزی حکومتوں کی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور عدل و دین کی پاکیزگی کے نام پر بغاوت کرتے تھے، خوارج کی یہ بغاوتیں اکثر فوجی کارروائیوں کے ذریعے دبائی جاتی تھیں کیونکہ وہ خلافت کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے تھے۔
سنہ 178 ہجری قمری میں ہارون رشید کے خلاف خوارج نے ولید بن ظریف کی قیادت میں جزیرۃ العرب میں بغاوت کی؛ یہ بغاوت اتنی طاقتور اور خطرناک تھی کہ مسلسل جنگوں کے باوجود خوارج نے مسلمانوں کی فوجوں کو شدید شکست دی۔
آخرکار ہارون رشید نے معن بن زائده شیبانی یا یزید کو ان کی سرکوبی کے لیے مقررکیا، یزید ایک تجربہ کار اور ماہر اسلامی فوجی کمانڈر تھا اور وہ خوارج کے سردار ولید کے ساتھ ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، اس لیے یزید اکثر جنگ سے بچنے کی کوشش کرتا اور ان کے ساتھ صلح کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
یزید کی اس طرز عمل کے بارے میں فوج کے مشیروں اور افسران نے ہارون رشید سے شکایت کی کہ یزید جان بوجھ کر خوارج کے ساتھ جنگ کو مؤخر کر رہا ہے؛ اس پر ہارون رشید نے ایک دھمکی آمیز خط میں یزید کو حکم دیا کہ وہ فوراً ولید کو بے اثر کرے اور اس فتنہ کو ختم کردے۔
یزید نے خوارج کے سردار ولید کو ایک خط بھیجا جس میں اس نے سوال کیا: اللہ کے مسلمان بندوں کو قتل کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ آؤ ہم دونوں یہ معاملہ مردوں کی طرح حل کریں، ولید نے جب یزید کا خط پڑھا، فوراً میدان جنگ میں اتر آیا۔
دونوں رہنما(یزید اور ولید) کئی گھنٹوں تک آپس میں لڑتے رہے اور ان کی فوجیں یہ منظر دیکھتی رہیں؛ آخرکار ولید قتل ہو گیا اور اس کی فوج نے بغاوت سے ہاتھ کھینچ لیا، اس طرح ہارون رشید کی خلافت اس فتنے سے نجات پا گئی۔