2015ء ماہ اپریل قبائلی علاقوں کے جنگجو گروپوں کے قائدین پاکستان اور افغانستان کے ایک سرحدی علاقے میں جمع ہوئے اور حافظ سعیدخان کو اپنا سربراہ منتخب کیا، حافظ سعیدخان نے داعش کے مرکزی سربراہ ابراہیم عواد (ابوبکر البغدادی) کے ہاتھ پر بیعت کا اعلان کیا اور کچھ ہی وقت بعد داعش نے اپنے مرکزی ترجمان ابو محمد عدنانی کی آواز میں ایک پیغام کے ذریعے خراسان شاخ کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا اعلان کیا۔
داعش نے حافظ سعیدخان کو خراسان شاخ کا سربراہ اور شیخ عبدالحسیب لوگری کو اس کا نائب مقرر کیا، ابتدائی طور پر اس فتنہ پرور جماعت میں پاکستان اور افغانستان سے کچھ سخت گیر اور انتہا پسند سوچ رکھنے والے افراد شامل ہوئے، جن میں امارتِ اسلامی اور تحریکِ طالبان پاکستان کے بعض ایسے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی سخت گیر سوچ کی وجہ سے اپنی ہی جماعت سے بغاوت کی تھی۔
اس کے علاوہ کچھ اور چھوٹے گروپ بھی جو تنہا اور بے اثر تھے، اس فتنہ پرور جماعت میں شامل ہوئے۔ ان گروپوں میں گل زمان فاتح کا گروپ، لال مسجد کے عمر منصور کا گروپ، عبید اللہ پشاوری کا توحید و جہاد گروپ، شیخ عبدالقاہر کی قیادت میں ابطال الاسلام کا گروپ، کنڑ میں شیخ محسن کا گروپ، پختونخواہ کے مروت علاقے کا طلحہ اور کرم کے دولت میر کا گروپ بھی خراسان شاخ میں شامل ہو گئے۔
خراسان شاخ کے ابتدائی افرادی قوت میں وزیرستان میں مقیم وہ ازبک اور غیر ملکی مہاجرین بھی شامل تھے جو انتہا پسند اور سخت گیر افکار کے حامل تھے یا جو دیگر جہادی گروپوں سے نکالے گئے تھے۔ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی کاروائیوں کے ساتھ یہ مہاجرین داعش خراسان میں شامل ہونے کی طرف راغب ہوئے۔ ان کے کچھ افراد قبائلی علاقوں اور ننگرہار پہنچے اور وہاں داعش کے ساتھ شامل ہو گئے، جب کہ کچھ افراد ملک کے دوسرے علاقوں اور زابل صوبے میں پہنچے، یہ افغانستان میں داعش کے اثر و رسوخ اور سرگرمیوں کی ابتدا تھی۔
داعشی گروہ خلافت کے اعلان سے لے کر اپنے ابتدائی عروج، پھر خراسان شاخ کے قیام اور آج تک، بیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے میں ایک بدنام زمانہ گروہ کے طور پر جانا جاتا ہے، جس نے انسانیت اور اسلام کے خلاف بہت بڑے اور ناقابل معافی جرائم کیے ہیں، داعشی گروہ خاص طور پر خراسان شاخ نے چند سالوں میں عروج و زوال کے کئی مراحل دیکھے ہیں، افغانستان میں اس گروہ نے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک بڑے اور سنگین خطرے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت یہ گروہ افغانستان میں خود سنجیدہ چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، اس کی اثر پذیری اور طاقت میں شدید کمی آئی ہے، اور افغانوں کے ساتھ نسلی اور فکری تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اس کے اندرونی افرادی و مالی وسائل ختم ہوتے جارہے ہیں۔
اس تحریر میں 2023ء اور 2024ء کے دوران خراسان شاخ کی صورتحال کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جائے گا۔
خراسان شاخ کی سیکیورٹی و امنیتی صورتحال:
امارتِ اسلامی کے اقتدار میں آنے کے بعد، داعش کی خراسان شاخ کی فوجی حالت بتدریج کمزور ہوتی گئی ہے، اس کے حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے، اس کے عسکری افراد گرفتار اور ان کے خفیہ ٹھکانے، نیٹ ورکس ختم کردیے گئے ہیں۔ خراسان شاخ کی یہ صورتحال گزشتہ برسوں میں اس گروہ کے خلاف موثر کاروائیوں کے براہ راست اثرات کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، داعش نے 2023ء میں افغانستان میں 20 حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جب کہ 2022ء میں 145 اور 2021ء میں جو اسلامی امارت کے اقتدار کا پہلا سال تھا، خراسان شاخ نے 293 حملے کیے۔ اگرچہ یہ اعداد و شمار مختلف ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیں، تاہم ان تمام اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خراسان شاخ کی تخریبی سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی ہے، اس حد تک کہ حملوں کی شماریاتی گراف 2023ء کے آخر تک اور پھر 2024ء میں مسلسل صفر کے قریب پہنچ گئی۔
2024 ء کے دوران، داعش کے حملوں کی ماہانہ شرح ایک اور کچھ مہینوں میں صفر ہو گئی۔ اس سال میں مجموعی طور پر 16 حملے کیے گئے (جبکہ بعض عالمی رپورٹس میں یہ تعداد 19 بتائی گئی ہے)، جن میں زیادہ تر حملے شہری مذہبی افراد، اقلیتی گروہوں اور معصوم شہریوں پر ہوئے۔
۲۰۲۳ء کے دوران اور اس سے قبل خراسان شاخ کی داخلی ناکامیاں، سخت حالات اور جنگیں اس کا سبب بنیں کہ انہوں نے افغانستان سے اپنی توجہ ہٹاکر خطے کے دیگر ممالک پر مرکوز کردی۔ افغانستان سے اس کے رہنماء، ذمہ دار افراد، جنگجو اور دوسرے افراد فرار ہو گئے اور انہوں نے پاکستان جیسے ہمسایہ ممالک میں پناہ لی، جہاں انہوں نے اپنی صفوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
اس عسکری حکمت عملی میں تبدیلی کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ خراسان شاخ کی بدنام پراکسی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ گروہ عالمی خفیہ ایجنسیوں اور سیاسی مقابلوں کے تحت پراکسی جنگوں میں ایک آسان اور سستا انتخاب بن چکا تھا، اسی وجہ سے اس نے خطے میں پیچیدہ اور کافی مشکل حملے بہت آسانی سے کیے۔ خراسان شاخ کی طرف سے خطے میں کیے گئے حملوں میں سے، ۲۰۲۴ء کے جنوری میں ایران میں دو حملے اور مارچ کے مہینے میں روس کے کراسنگورسک ہال میں حملے شامل ہیں، جو ان بڑی کاروائیوں میں سے تھے جو خراسان شاخ نے اپنی بیرونی توجہ مرکوز کرنے کے سلسلے میں کیے۔
امارتِ اسلامی کی جانب سے داعش خراسان کے خلاف جدوجہد اور 2023ء اور 2024ء میں اس کی سرگرمیوں پر اثر:
امارتِ اسلامی نے داعش خراسان کے خلاف اپنی جنگ کو کئی اہم اور بنیادی مراحل میں انجام دیا، فتح سے پہلے جب امارتِ اسلامی نے ننگرہار میں داعشی فتنے کو شکست دی، تو داعش کے باقی جنگجوؤں کو اس وقت کے حکومتی اداروں اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے بڑے شہروں میں منتقل کر دیا گیا، اور ان میں سے کچھ افراد جو جیلوں میں تھے، انہوں نے فتح کے فورا بعد امارتِ اسلامی کے خلاف تخریبی کاروائیاں شروع کردیں۔
اس کے ردِ عمل میں امارتِ اسلامی نے ایک ذمہ دار نظام کے طور پر جنگ کا پہلا مرحلہ شروع کیا، اس مرحلے میں امارت نے خراسان شاخ کی نچلے سطح کے جنگجوؤں کو بڑی تعداد میں ختم کیا یا گرفتار کیا، اس دور میں داعش کے سیکڑوں جنگجو مارے گئے، گرفتار ہوئے یا سرینڈر ہوئے، ان کی سرگرمیوں کے متعدد مراکز اور پناہ گاہوں کو تباہ کر دیا گیا۔
جنگ کے دوسرے مرحلے میں داعش کی درمیانی سطح کے ذمہ داران، گروپ کے قائدین، کمانڈرز، اور میڈیا کے افراد کو ہدف بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کئی درمیانی سطح کے ذمہ داران اور افراد مارے گئے یا گرفتار ہو گئے۔
جنگ کے تیسرے مرحلے میں داعش خراسان کے اعلیٰ سطح کے رہنماؤں کو ہدف بنایا گیا۔ اس سلسلے میں ان کی 95 فیصد قیادت کو ختم کر دیا گیا، اور خراسان شاخ کے تین اہم کمانڈروں (اسلم فاروقی، مولوی ضیاءالدین احمد، شیخ ضیاءالحق ضیاء) سمیت متعدد عسکری اور رہنما سطح کے رہنماؤں کو مارا گیا یا گرفتار کیا گیا۔
امارتِ اسلامی کے مؤثر رد عمل کے نتیجے میں خراسان شاخ ہر اعتبار سے شکست سے دوچار ہوئی، اسی منظم جنگ کا نتیجہ تھا کہ داعش خراسان گزشتہ تین سالوں میں بتدریج بڑی اور مسلسل شکستوں کا سامنا کرتی رہی، یہاں تک کہ 2023ء میں اس کے عسکری، مالی اور تنظیمی شعبے ختم ہوگئے، اور 2024ء میں اس کی تخریبی سرگرمیوں کا گراف سب سے کم سطح پر آ گیا، عالمی سطح پر اس کی مالی معاونت کے ذرائع ختم ہو گئے، اور وہ بے پناہ مالی بحران کا شکار ہو گئی، یہاں تک کہ اس نے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپریشنز کے اخراجات خود برداشت کریں۔
اس کے افرادی وسائل کی فراہمی بھی ختم ہو گئی، اس کی تنظیمی ساخت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی، ثقافتی، دعوتی اور ہجرت کے شعبوں کے اہم ذمہ داران مارے گئے یا گرفتار ہوئے، اور باقی رہنماؤں اور اہم ذمہ داران نے پڑوسی اور دیگر علاقائی ممالک میں پناہ لے لی۔ اس وقت، داعش خراسان قریباً تمام حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پرعمل درآمد انہی علاقوں سے کرتی ہے، اور اس کے پاس رہائش، تربیت اور عسکری تربیتی مراکز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جنہیں مختلف اطراف سے امارت اسلامی کے خلاف ایک منصوبے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں افغانستان، خطے اور دنیا بھر میں ہونے والے حملے انہی جگہوں سے منصوبہ بندی اور عمل میں لائے گئے ہیں۔
یوں، داعش خراسان نے پچھلے چند سالوں میں متعدد اسٹریٹیجک شکستوں کا سامنا کیا ہے، اگرچہ اس گروہ کا وجود اور سرگرمیاں ابھی بھی جاری ہیں، لیکن امارت اسلامی کے ساتھ براہ راست جنگ کے نتیجے میں اس گروہ کی طاقت میں بہت کمی واقع ہوئی ہے، اس کی سوشل، عسکری اور مالی حمایت ختم ہو چکی ہے؛ اس کا رعب، طاقت اور نام نہاد دبدبہ نہ صرف افغانستان میں کم ہو چکا ہے، بلکہ خطے اور دنیا بھر میں بھی افغانستان کی شکست نے اس کو سنگین نقصان پہنچایا ہے۔
اس کے علاوہ امارتِ اسلامی کی داعش کے خلاف مضبوط و منظم جنگ نے افغانستان کو ان کے شر سے محفوظ کرلیا ہے، اور دنیا بھر میں اس گروہ کے خطرے کی سطح بھی کم ہو گئی ہے۔ اگرچہ ابتدا میں یہ گروہ بعض علاقوں پر قابو پانے کے بعد ایک حد تک طاقتور دکھائی دیتا تھا، لیکن اگر 2024ء سے پہلے اور آج کے حالات کا موازنہ کیاجائے تو ہر شخص جان سکتا ہے کہ خراسان شاخ کی طاقت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 2015 میں جب اس گروہ نے افغانستان میں اپنا اثر بڑھایا، تو پاکستان، افغانستان اور علاقے کے دیگر ممالک میں اس کے حملے اور خطرے کی سطح کافی زیادہ تھی، لیکن اب اس گروہ کی سرگرمیوں میں پہلے کی نسبت کمی آ چکی ہے، اور وہ قابلِ ذکر حملے جو پہلے وہ کرسکتے تھے، اب بہت کم تعداد میں اور بے اثر ہوچکے ہیں۔