۱۳۵۸ ہجری شمسی سال کو سوویت یونین کی سرخ افواج نے افغانستان کی پاک سرزمین پر انسانوں کے تمام حقوق اور قوانین کی پامالی کرتے ہوئے حملہ کیا، اس حال میں کہ ہمارے تمام مذہبی، اسلامی، ثقافتی، سیاسی اور عسکری روایات اور مقدسات کو قدموں تلے روند ڈالا۔
انہوں نے قسما قسم کے ظلم و ستم اور وحشتوں کا ارتکاب کیا، تقریباً پندرہ لاکھ معصوم افغان شہری شہید ہوئے، دو ملین زخمی اور معذور ہوئے، اور دس لاکھ کے قریب افغان شہری دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ اس وحشیانہ حملے کے خلاف افغانوں کے مسلم حق دفاع کے لیے اُس وقت کے بڑے علماء کرام نے جہاد کا فتویٰ جاری کیا اور اس حملے کی شرعی اور سیاسی ہر سطح پر مذمت کر ڈالی۔
اسی لیے افغان قوم کے تمام بزرگوں، نوجوانوں، خواتین، بچوں اور تمام طبقات نے اپنے دینی اور اسلامی فرض کے مطابق جہاد کے میدان میں قدم رکھا، بڑی قربانیاں پیش کیں، تھکاوٹیں اور مشکلات برداشت کیں اور آخرکار اس مقدس جہاد کو اپنی جانیں، اموال و اولاد کی قربانی اور قابض افواج کو شکست فاش دے کر دس سال کے طویل عرصے بعد ۱۳۶۸ ہجری شمسی ماہ دلو کی ۲۶ تاریخ کو فتح کی منزل تک پہنچایا، الحمدللہ۔
اس مبارک جنگ میں سوویت فوج کی شکست کے علاوہ ان کے ۱۴۴۵۰ روسی حملہ آور مارے گئے، ۴۹۹۸۳ زخمی ہوئے اور ۳۳۰ اب تک لاپتہ ہیں، اس دس سالہ بحران کے اصل ذمہ دار وہ افغان نژاد غدار تھے، جو غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ مل کر اپنے ملک کے دین اور تہذیب پر حملہ آور ہونے کے لیے سوویت یونین کے قدموں میں سر جھکائے ہوئے تھے، وہ بھی حملے کے دوران سوویت فوجیوں کے ساتھ ٹینکوں پر سوار ہو کر افغان سرزمین پر اتر آئے۔
ان چند بکے ہوئے مشہور افراد میں سے کچھ: ببرک کارمل، حفیظ اللہ امین، نجیب اور ان جیسے دیگر افراد ہیں۔ انہوں نے اپنے چند روزہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے سوویت فوجوں کے ساتھ مل کر افغانوں کی نسل کشی کی، انہوں نے افغانوں کو قتل کرنے اور ان پر مظالم ڈھانے کے بدلے سوویت فوجیوں کے سینے پر تمغے لگائے اور انہیں افغانوں کو قتل کرنے پر ہیروز کا خطاب دیا۔
یہ حملہ حقیقت میں افغانستان کے چالیس سالہ بحران اور بدامنی کی بنیاد تھا، اور اس کے ذمہ داروں کو اللہ اور افغان قوم کبھی معاف نہیں کرے گی اور تاریخ انہیں ہمیشہ برے الفاظ میں یاد رکھے گی۔
ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم موجودہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف ملک کو ہر اعتبار سے ترقی دیں، بلکہ نوجوان نسل کی بیداری اور فکری ترقی کے لیے اپنے ذمہ داری کو مکمل طور پر ادا کریں۔ ۲۶ دلو کے اصلی ہیروز کو پہچانیں اور ان غلام چہروں کو اپنی قوم کے سامنے لائیں تاکہ ہیرو اور غلام، فاتح اور مفتوح میں تمییز کی جاسکے اور آج کا دن اس کا بہترین موقع ہے۔
اس شاندار دن کی فتح اور کامیابی ہمارے ان بزرگوں اور افغانوں کی طرف منسوب ہے جنہوں نے اپنی جان کی قیمت پر اس ملک کو سوویت فوجوں کے قبضے سے آزاد کیا۔ وہ ہماری تاریخ کے سنہری صفحات پر ہیروز کے طور پر درج ہیں اور ہم ہمیشہ ان پر فخر کرتے ہیں، ان کے جہادی کارنامے ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں، اور ہم آج کے دن اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہمیشہ ان بہادر و جانثاروں کے راستے پر چلیں گے؛ ان شاء اللہ۔