افغانستان کے لیے پاکستان کا نمائندۂ خصوصی آصف درانی حقیقت میں افغانستان کا نام استعمال کرکے خطے میں صلیبی نوکری کے لیے کوششیں کررہا ہے۔ موصوف نے حالیہ دنوں میڈیا پر بیان دیتے ہوئے کہاکہ:
"غزہ اور یوکرین کے بحران میں عالمی برادری افغانستان کے ایشو کو بھول چکی ہے،جس کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑے گا۔”
درانی کے تبصروں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی شکست کے بعد پاکستان اپنے معاشی بحران کو ختم کرنے کے لیے افغانستان میں امریکی شرانگیزی کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد اب ان کے دلی ارمان زبان پر جاری ہورہے ہیں جو آئے دن میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔
حالانکہ تمام دنیا اور خود پاکستانی عوام بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان اور خطے میں جاری دہشتگردی کا ذمہ دار پاکستان ہے لیکن اپنی تمام تر ناکامیوں کا الزام افغانستان پر لگا رہا ہے۔
بجائے اس کے کہ پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیز ملک میں امن وامان قائم کریں وہ داعش کو ٹھکانے فراہم کررہی ہیں، انہیں عسکری تربیت دی جارہی ہے، جس کا مقصد یہی ہے کہ افغانستان کے امن کو سبوتاژ کرکے امریکہ سے ڈالر بٹورے جائیں۔
درانی نے ایک اور بے بنیاد دعوی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اگر افغانستان سے ملحقہ سرحدیں کھول دیتا ہے تو بہت سے افغان عوام پاکستان چلے جائیں گے۔
جبکہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے، پاکستان میں بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، روپے کی قدر میں نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے، امن و امان کی صورتحال خراب اور اکثر صوبوں میں حالات کشیدہ ہیں جس کے باعث پاکستانیوں کی اکثریت باہر ممالک جانے کے لیے غیر ملکی سفارت خانوں کے آگے آئے روز قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔
پاکستانی عوام ۱۹۷۲ء میں پاکستان سے علیحدہ ہونے والے بنگلہ دیش کی ترقی کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اسی طرح پاکستانی عوام روپے کے مقابلے میں افغانی کرنسی کی قدر میں اضافہ اپنے اعلی حکام کے لیے بطور ننگ و عار گردانتے ہیں۔
درانی نے پاکستان میں آئے روز انسانی حقوق کی پامالی پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں جبکہ افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا رونا روتا رہتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان عالمی سطح پر انسانی حقوق کی حفاظت، امن وامان اور معاشی لحاظ سے سرفہرست ہے جس کی تائید عالمی اداروں کی شائع شدہ رپورٹوں سے بھی ہوتی ہے۔
لیکن پاکستانی حکام اپنے امریکی آقاکے وعدوں اور طفل تسلیوں پر رال ٹپکا رہے ہیں، تاکہ افغانستان کو غیر محفوظ ثابت کرکے اپنی معاشی بدحالی سے بچاؤ کے لیے عالمی برادری سے نام نہاد دہشتگردی کے خلاف نئے معاہدے کرسکیں لیکن یہ صرف دیوانے کا خواب ہے اور کچھ نہیں۔