اسرائیل اور داعش کے درمیان تعلقات کوئی سادہ دشمنی کی کہانی نہیں، بلکہ یہ نظریاتی مخالفت، مشترکہ علاقائی مفادات، اور بالواسطہ تعاون کا ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی جال ہے۔ اگرچہ دونوں فریق اعلانیہ ایک دوسرے کو سنگین دشمن کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن ان کے اقدامات اور خطے میں ان کا وجود عملی طور پر اکثر ایک دوسرے کے مفاد میں رہی ہے۔
نظریاتی طور پر، داعش اسرائیل کو ایک "یہودی ریاست” اور اسلام کا دشمن سمجھتی ہے جسے ختم کیا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس، اسرائیل بھی داعش کو ایک وحشی دہشت گرد خطرہ قرار دیتا ہے۔ لیکن یہ نظریاتی دشمنی عملی میدان میں بہت کم نظر آئی۔ برسوں تک داعش شام میں اسرائیل کی سرحدوں کے قریب سرگرم رہی، لیکن اس نے اسرائیل پر عملی طور پر کوئی بھی حملہ نہیں کیا۔ یہ "عسکری خاموشی” اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ داعش کی ترجیحات اسرائیل کے بجائے دیگر علاقوں کی طرف کیوں تھیں؟
اس پیچیدہ تعلق کی سب سے واضح مثال شام کے جنوب میں جولان کی پہاڑیوں کے قریب داعش سے منسلک گروہ "جیش خالد بن الولید” کی موجودگی تھی۔ اس گروہ نے برسوں تک اسرائیل کی سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر اپنا تسلط قائم رکھا، لیکن اس کے باوجود اس نے اسرائیل کے خلاف کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں کیا۔ اس کے برعکس، ایسی رپورٹس موجود تھیں کہ اسرائیل اسد رجیم کے خلاف لڑنے والے بعض گروہوں کے زخمیوں کا علاج اپنے ہسپتالوں میں کرتا رہا، جن میں یہ گروہ بھی شامل تھا۔
یہ صورتحال ایک "بالواسطہ جنگ بندی” یا غیر اعلانیہ معاہدے کے شکوک کو تقویت دیتی ہے، جس کے تحت داعش نے اسرائیل کے دشمنوں (اسد رجیم اور ایران نواز قوتوں) کو نشانہ بنایا، اور اسرائیل نے بدلے میں ان کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی سے گریز کیا۔
اس پیچیدہ تعلق کا سب سے اہم محرک "مشترکہ دشمن” کی موجودگی ہے۔ اسرائیل اور داعش دونوں ایران، شام کی بشار الاسد حکومت، اور لبنان کی حزب اللہ کو اپنا بنیادی دشمن سمجھتے ہیں/سمجھتے تھے۔ شام اور عراق میں داعش کی لڑائیوں نے عملی طور پر اسرائیل کے درج ذیل اسٹریٹجک مقاصد کی خدمت کی:
*مزاحمتی محور کو کمزور کرنا:* داعش نے برسوں تک شامی فوج اور حزب اللہ کو ایک خونی اور تھکا دینے والی جنگ میں الجھائے رکھا، جس سے اسرائیل کے خلاف ان کی توجہ اور طاقت کی سطح کم ہوئی۔
*اسرائیل کے لیے آپریشنل آزادی:* داعش کی وجہ سے علاقے میں پیدا ہونے والی افراتفری نے اسرائیل کو یہ موقع دیا کہ وہ شام میں ایران اور حزب اللہ کے اہداف پر سینکڑوں فضائی حملے کرے، بغیر کسی سنجیدہ جوابی کارروائی کے۔
اگرچہ داعش نے حالیہ برسوں میں فلسطین کے معاملے پر اپنی پروپیگنڈا مہم کو تیز کیا ہے، لیکن یہ پروپیگنڈا بھی بالواسطہ طور پر اسرائیل کے مفاد میں ہے:
الف: داعش کی وحشیانہ اور انتہا پسندانہ کارروائیاں اس بات کا باعث بنتی ہیں کہ فلسطین کی جائز مزاحمت کو بھی دہشت گردی کے طور پر دیکھا جائے۔ اسرائیل اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو "مہذب” اور مخالف فریق کو "وحشی” کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔
ب: داعش نہ صرف اسرائیل بلکہ حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کی بھی سخت مخالفت کرتی ہے۔ ان گروہوں پر داعش کے نظریاتی حملے مزاحمتی صفوں کو کمزور کرتے ہیں اور بالآخر اسرائیل کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
ج: داعش کی موجودگی نے عالمی توجہ کو فلسطین کے اصل معاملے سے ہٹا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرف موڑ دیا، جس کے نتیجے میں اسرائیل کی کارروائیاں نظروں سے اوجھل رہیں۔
مختصراً، اسرائیل اور داعش کے درمیان تعلقات تزویراتی دشمنی اور حکمت عملی کے تعاون کی ایک بہترین مثال ہیں۔ نظریاتی طور پر وہ دشمن ہیں، لیکن عملی میدان میں مشترکہ دشمنوں کی موجودگی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایک فریق کی کارروائیاں دوسرے فریق کے مفاد میں رہیں۔
داعش نے، خواہ دانستہ ہو یا غیر دانستہ، مشرق وسطیٰ کے شطرنج کے کھیل میں ایک ایسا کردار ادا کیا جس نے بڑی حد تک اسرائیل کے سیکیورٹی اور اسٹریٹجک مقاصد کی مدد کی۔ ان کا پروپیگنڈا، جو ظاہری طور پر اسرائیل مخالف ہے، حقیقت میں فلسطین کے قضئے کو نقصان پہنچاتا ہے اور اسرائیل کے لیے پروپیگنڈا کے مواقع فراہم کرتا ہے۔