اسلام، ایک مکمل دین اور الہی قانون کے طور پر، معاشرے میں انسانی نظم و نسق اور ترقی کے تمام پہلوؤں پر منطقی توجہ دیتا ہے اور اس نے کسی بھی شعبے کو ابہام میں نہیں چھوڑا۔ ان پہلوؤں میں سے ایک اسلامي نظام میں اقتصاد کی اہمیت اور اپنے پیروکاروں کو غربت سے نکالنا ہے۔ اسی وجہ سے اسلامي اقتصادی نظام اور اسلام میں اقتصاد کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس کے انتظام کے لیے ایک بہترین اقتصادی نظام وضع کیا گیا ہے، اس کے اصول و قوانین متعین کیے گئے ہیں، اور یہاں تک کہ غیر اسلامی ممالک کے اقتصادی نظاموں پر بھی اس کا گہرا اثر پڑا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد مسلمان اور اسلامی معاشرے کو فقر اور غربت سے نجات دلانا اور خود کفالت کو یقینی بنانا ہے۔
چونکہ اسلامي نظام کا موضوع ہر مسلمان کے ليے واضح ہے اور وہ اس کے ڈھانچے سے واقف ہے، اس ليے يہاں اس پر بات کرنا ضروری ہے۔ بحث میں داخل ہونے سے پہلے نظام اور اقتصاد کے تعارف پر کچھ بات کرنا ضروری ہے۔
نظام لغت میں نظم کے لفظ سے نکلا ہے، جس کے معانی ترتیب، تالیف، روش، طریقہ، عادت، ہدایت، اور استقامت ہیں۔ اصطلاح میں یہ ان قوانین کا مجموعہ ہے جو فکری، عقیدتی، سیاسی، اقتصادی، سماجی، تعلیمی اور دیگر امور کو منظم کرتا ہے
دوسری طرف، اقتصاد لفظ قصد سے نکلا ہے، جس کا مطلب کسی چیز میں اعتدال اور سہولت پیدا کرنا ہے۔ اصطلاح میں یہ وہ قواعد و اصول ہیں جو اسلامي شريعت کے دائرے میں معاشرے اور فرد کی خدمت اور ترقی کے ليے آمدنی، اخراجات، اور معاشرے کی ترقی کے طریقوں پر بحث کرتے ہیں۔
اس طرح، اسلامي اقتصادي نظام ان بنیادی قواعد کا مجموعہ ہے جو اقتصادی زندگی کو منظم کرنے، اقتصادی مسائل حل کرنے، اور سماجی انصاف کے ليے افراد کی فلاح و بہبود اور ایک مثالی معاشرے تک پہنچنے کی خدمت سرانجام دیتا ہے، جس کے ليے تمام انبياء اور ائمہ کرام نے پوری تاریخ میں کوشش کی۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اسلامي اقتصادي نظام احکام، قواعد، اور وسائل کا وہ مجموعہ ہے جو اسلامي معاشرے کے اقتصادی پروگراموں کے نفاذ، پیداوار، تقسیم، اور تبادلے کے شعبوں میں اقتصادی مسائل کے حل، دولت کی تقسیم، ملکیت، اور تصرف کے ليے کام کرتا ہے
اسلامي اقتصادي نظام کے احکام دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں: ثابت احکام اور متغیر احکام۔
ثابت اقتصادی احکام وہ ہیں جو واضح قرآنی نصوص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پر مبنی ہیں، جیسے کہ سود، شراب، اور خنزیر کے گوشت کا حرام ہونا۔
متغیر احکام میں حالات کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں، جیسے کہ سرکاری آمدنی اور اخراجات کے درمیان توازن۔
اسلام میں اقتصادی نظام ایک خاص مثلث پر مشتمل ہے جس میں فرد، مالک، اور معاشرے کے افراد شامل ہیں۔ اس کی اعتقادی بنیاد توحید اور واحد ذات کی پرستش سے لی گئی ہے، کیونکہ ہر اقتصادی لین دین اور تجارت میں خالق کی رضا اور احکام کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اسلامي اقتصادي نظام میں حلال و حرام کے بارے میں صرف فساد سے بچاؤ اور فوائد کے حصول کی بنیاد پر بحث کی جاتی ہے۔
عبادتی خصوصیات کے لحاظ سے ہر اقتصادی لین دین ایک عبادت ہے، اور ناجائز اقتصادی لین دین کو ترک کرنا بھی عبادت سمجھا جاتا ہے۔ معاملات کے ساتھ ساتھ اسلامی اقتصادی نظام میں داخلی خود احتسابی دراصل ایک ایمانی خود احتسابی ہے، اور ہر مومن فرد اقتصادی لین دین میں سب سے پہلے اپنے ایمان کی بنیاد پر صداقت کو اہمیت دیتا ہے۔
اسلامي اقتصاد کے ماہرین نے اقتصاد کے ليے درج ذیل چار اصول متعين کيے ہیں:
۱۔ مال کے حصول اور ممانعت کے طریقوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا علم۔
۲۔ اس حکم کی پیروی میں حلال اور حرام کے درمیان تمیز کرتے ہوئے نیک نیتی سے فیصلہ کرنا۔
۳۔ اخراجات کرنے اور غیر ضروری اخراجات سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں الہی حکم کا علم۔
۴۔ اخراجات کرنے اور غیر مفید طریقوں سے گریز کرنے میں نیک نیتی سے فیصلہ کرنا۔
اسلامي اقتصادي نظام میں آمدنی، اخراجات، تجارت، سرمایہ کاری، اقتصادی مشروعیت، اور غیر مشروعیت کے بارے میں متعدد قرآنی ہدایات موجود ہیں۔ اسی طرح، نبوی احادیث میں بھی اقتصادی رہنمائی موجود ہے، جو فقر اور غربت سے نجات اور بچاؤ کا حکم دیتی ہیں
ایک اہم بحث اسلامي اقتصاد میں ملکیت اور وسائل کی ہے۔ ملکیتِ عامہ میں وہ تمام سرکاری زمینیں، سرکاری ادارے، عوامی موسسات، اور دیگر امور شامل ہیں جو ریاست سے متعلق ہوں اور عوامی یا سماجی خدمات کے ليے استعمال ہوں۔ قدرتی وسائل میں زمین، خام مال (جیسے کان)، قدرتی پانی، جنگلات، سمندر، حیوانی و نباتی وسائل، توانائی، اور کیمیائی مواد شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ عوامی آمدنی بھی شامل ہے، جیسے کہ عام سرکاری آمدنی جو کمپنیوں، مفادِ عامہ کے اداروں، اور اوقاف، زکوٰۃ، جزیہ، غنائم، بے مالک اموال، اور عشر سے حاصل ہوتی ہے۔ دوسری قسم میں انفرادی ملکیت کے وسائل شامل ہیں جو اسلامي اقتصاد کا حصہ ہیں، جیسے تجارت، مزدوری، زراعت، مویشی پالنا، زمینوں کی آباد کاری، صنعت، تنخواہیں، تحائف، وصیت، وراثت، عورتوں کا مہر، مساکین کے لیے زکوٰۃ، اور صدقات۔
اسلامي اقتصادي نظام کی سب سے نمایاں خوبی اور اہمیت یہ ہے کہ اس نے معاشرے کے مظلوم، بے سہارا، اور کمزور افراد کی کفالت کی ذمہ داری لی ہے اور سماجی کفالت نے حتی کہ غیر مسلموں کی زندگی کو بھی محفوظ بنایا ہے۔ لیکن اس کے سماجی نظام کے ڈھانچے میں ان کی خود کفالت، کام، اور پیشے کی تربیت کا پروگرام بھی شامل ہے۔
اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو تجارت کو اس میں بلند مقام حاصل ہے۔ اسلامی حکومت کے اکثر ذمہ داران نے خاندانی اور اقتصادی ضروریات کے ليے بیت المال سے مالی وسائل لینے کے بجائے کاروبار یا تجارت کو ترجیح دی اور اپنی محنت کی کمائی کو بہتر سمجھا۔ اسی طرح، سابقہ انبیاء کے ادوار میں بھی اکثر انبیاء نے خاندانی اخراجات کے ليے کوئی نہ کوئی پیشہ اپنایا۔
ان بیانات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اسلامي معاشرے کو دیگر طاقتوں کے ساتھ ساتھ اقتصادی طور پر بھی مضبوط اور طاقتور ہونا چاہئے تاکہ ایک طرف ترقی اور وسعت کی طرف بڑھے، اور دوسری طرف جہاد، جدوجہد، یا اپنے دین کی تبلیغ و حفاظت کے ليے مالی طور پر خود کفیل ہو۔ اگر یہ اقتصادی طور پر کمزور ہو تو اس کے ليے اپنے عقیدے اور اقدار کی حفاظت کرنا اور دوسروں کی تقلید سے بچنا مشکل ہوگا۔
موجودہ دور میں قبضے اور استعمار کا ایک مضبوط ہتھیار اقتصادی غلبہ ہے، کیونکہ ایک اقتصادی طور پر طاقتور ملک دوسرے کمزور ملک کو مالی لین دین میں اپنے اثر میں لے آتا ہے اور اسے مقروض یا محتاج رکھتا ہے۔ لیکن چونکہ اسلامي نظام اور معاشرہ اقتصادی وسائل کے ليے وسیع ذخائر اور راستے رکھتا ہے، یہ صرف جائز اقتصاد اور مالیات پر بھی غیر ملکی قابضین کی امداد یا قرضوں کے بغیر چل سکتا ہے۔