امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکنا) اسلامی نظام میں ایک انتہائی نمایاں اور اہمیت کا حامل شعبہ ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں کی انفرادی اور معاشرتی زندگی میں بنیادی تبدیلیاں اور اصلاح کی جاسکتی ہے۔
ہر اسلامی حکومت دراصل مسلمانوں کی زندگی کے پانچ اہم مقاصد کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار ہے جو کہ دین، جان، عقل، مال اور نسل پر مشتمل ہیں؛ اگر کسی اسلامی حکومت میں صرف لوگوں کے مال و دولت اور جان کا مکمل تحفظ ہو، لیکن ان کا دین اور عقل متاثر ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کامیابی کے بجائے وہ ہلاکت کے گڑھے میں گر رہے ہیں۔ اس لیے اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کے دینی اور عقلی لحاظ سے زوال، انحطاط اور فساد کو روکنے کی کوشش کرے۔
اصول فقہ کی کتابوں میں جب کسی شرعی عمل کے حُسن کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس عمل کا حسن یا تو بذات خود (لذاته) ہوگا یا کسی اور مقصد کے لیے (لغيره) ہوگا، لغيره کے لیے جہاد کی مثال دی جاتی ہے، جس میں بذات خود "عباد اللہ کو عذاب دینا اور بلاد اللہ کی تباہی” شامل ہوتی ہے، لیکن یہ ایک اور اہم مقصد کے لیے مشروع عمل ہے، یعنی جہاد بذات خود ایک جنگ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے بندوں کو عذاب پہنچتا ہے اور شہر تباہ ہوتے ہیں، لیکن اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لیے یہ سب کچھ جائز ہے۔
پس جب جہاد اہم مقاصد کے لیے مشروع ہو جائے؛ اس جہاد میں کامیابی کے بعد مجاہد کی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح کی ہے جہاں فرمایا ہے:
[الَّذِينَ ان مَّکَّنَّاهُم فِي الأَرضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَ أتَوُا الزَّکَوةَ وَ أَمَرُوا بِالمَعرُوفِ وَ نَهَوا عَنِ المُنکَر] (الحج_۴۱)
ترجمہ: (وہ مؤمن جو اللہ تعالیٰ کی مدد سے کامیاب ہوتے ہیں) وہ لوگ ہیں جو اگر زمین پر حکومت حاصل کریں تو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
اس آیت سے ہم مختصراً یہ استدلال کرتے ہیں کہ جهاد اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لیے مشروع ہے جو کہ طاقت اور اختیار کے ذریعے کیا جا سکتا ہے؛ حکومت حاصل کرنے کے بعد ایک خدائی ذمہ داری جو حکمران کو سونپی گئی وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، لہذا اگر کوئی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کا فکری، عقیدتی اور یا عملی طور پر مخالف ہو، تو اس جہاد کا نتیجہ بہت جلد ضائع اور برباد ہو جائے گا۔
اگرچہ بعض روشن فکر تجزیہ نگار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وزارت کے قیام اور رجسٹریشن پر حیران ہیں، لیکن انہیں جاننا چاہیے کہ "الحسبة” کو اسلام کے سیاسی ڈھانچے میں ایک اہم اور بنیادی اصول کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے، یہ ادارہ نیکیوں پر عمل پیرا ہونے اور منکرات کو روکنے کے لیے اقدامات کرتا ہے۔
"الحسبة” یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وزارت اسلامی حکومت میں لوگوں کی نگرانی اور اخلاقی کنٹرول کا ایک ادارہ ہے، جس کے ذریعے معاشرتی، انتظامی اور سیاسی بدعنوانیوں سے اسلامی حکومت کے رہنماؤں اور عوام کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اگرچہ اسلامی حکومتوں کا ایک اہم فریضہ سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ ذمہ داری معاشرے کے ہر فرد پر بھی عائد ہوتی ہے تاکہ ہر شخص اپنے طور پر اس فریضے کی ادائیگی میں حصہ لے۔
البتہ یہ وزارت اسلامی ہدایات کی روشنی میں اپنی سپرد کردہ سرگرمیوں میں بھی حدود کی پابند ہے جس پر اسے عمل پیرا ہونا ضروری ہے؛ مجموعی طور پر یہ علانیہ برائیوں کی روک تھام کی ذمہ دار ہے اور کبھی بھی اسے اجازت نہیں ہے کہ وہ اصلاح یا برائیوں کی روک تھام کے نام پر لوگوں کے ذاتی رازوں میں مداخلت کرے یا ان کی ذاتی زندگی میں جاسوسی کرنے کی کوشش کرے؛ اس کا فریضہ صرف علانیہ برائیوں کی روک تھام اور مخصوص حدود میں محدود ہے۔