یہ تحریر ایسے وقت میں لکھی جا رہی ہے جب بدقسمتی سے بعض اسلامی ممالک نے امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات قائم کیے ہیں جن کی بنیاد صرف معاشی مفادات پر رکھی گئی ہے۔ یہ ممالک اپنی افواج کی تیاری اور مسلح کرنے کے لیے اربوں ڈالر مالیت کے جدید ہتھیاروں کے حصول کی امید رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف غزہ اسی ملک کے بنائے ہوئے ان جدید ہتھیاروں اور آلات کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے، اور زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
کفری ممالک کے ساتھ ایک اسلامی نظام و حکومت کا تعامل موجودہ دور کی ایک ضرورت ہے، لیکن اس ضرورت کو پورا کرنا کسی بھی صورت میں اسلامی نظام کی دینی حیثیت اور شناخت کے مٹانے یا ذلت کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ اس میں مفادات کا توازن اور اپنی عوام کی رضامندی کا خیال رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
جب بھی کافر ممالک کے ساتھ اسلامی نظام کے تعلقات کی بات ہو، تو سب سے پہلے لازم ہے کہ سنجیدگی سے اسلامی نظام کی خارجہ پالیسی اور تاریخی بنیادوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس حوالے سے اندھی تقلید یا بین الاقوامی اور مغربی معاہدوں کی پیروی صرف اور صرف ذلت اور غلامی کی طرف ایک سفر ہوگا۔ اسی لیے درج ذیل تین نکات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے:
اسلامی اقدار اور اصولوں کا تحفظ:
اسلام اور اس کی اقدار کی عزت و وقار کا تحفظ ایک نہایت اہم موضوع ہے، جس کی خاطر اسلام کے آغاز سے لے کر آج تک لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ قرآن، احادیث اور فقہ میں اس حوالے سے بہترین رہنمائی موجود ہے۔ اس لیے ہر قسم کے بین الاقوامی تعلقات میں اسلامی اصول اور اقدار سرفہرست ہونے چاہییں تاکہ اسلامی معاشرے اور مسلمانوں کی عزت و حرمت محفوظ رہے۔
امن و استحکام کا قیام:
تعاون اور معاہدات کے بنیادی اغراض کے علاوہ کچھ ذیلی مقاصد بھی ہوتے ہیں، جن میں امن و استحکام ایک اہم ہدف شمار ہوتا ہے۔ امن یا استحکام بعض مخصوص حالات اور مصالح کو مدنظر رکھ کر حاصل کیا جاتا ہے۔
لیکن وہ امن جو اسلامی معاشرے کو غلامی یا بیرونی تسلط کا شکار بنائے، ایسے امن کو تسلیم کرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔
امریکی قبضے کے دوران سیکیورٹی معاہدوں اور مستقل اڈوں کے قیام کی بات چلی، تاکہ افغانستان کو ان کے مطابق امن و استحکام نصیب ہو۔ کابل انتظامیہ نے ان معاہدات پر دستخط بھی کیے، لیکن نتیجہ واضح ہے کہ نہ صرف یہ کہ امن قائم نہ ہو سکا، بلکہ جب امارتِ اسلامی کے مجاہدین نے مزاحمت شروع کی تو ابتدا ہی میں ان کے قدم ڈگمگا گئے اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔
باہمی جائز مفادات کا تحفظ:
ہر قسم کا تعامل باہمی مفادات کے تحفظ اور تکمیل کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن جب اسلامی نظام کسی غیر مسلم قوم یا افراد سے تعامل کرتا ہے تو اس کی بنیاد شرعی اور جائز مفادات پر ہونی چاہیے۔
یہ تعامل صرف اسی حد تک ہونا چاہیے جس حد تک اسلام اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے اجازت دیتا ہو۔ نہ ان پر اپنی ناجائز خواہشات مسلط کی جائیں، اور نہ ہی وہ ایسی شرطیں قبول کریں جو آزادی، خودمختاری اور اسلامی معاشرے کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیں، یا نئی نسل کو مشکلات میں مبتلا کر دیں۔
اب ہم اسی موضوع کی روشنی میں اسلام کی تاریخی اور بین الاقوامی روابط کی روش پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اسلام ایک عالمی دین اور آفاقی قانون ہے۔ وہ ایسی دنیا چاہتا ہے جہاں تمام انسان محض انسانی یا وضعی قوانین کی بجائے صرف ایک الٰہی قانون کی پیروی کریں۔
اسلام میں قوم، علاقہ یا نسل کی بنیاد پر کسی کو برتری حاصل نہیں، بلکہ پائیدار اصولوں اور ضابطوں کی پابندی بنیادی معیار ہے۔
قیادت اور ذمہ داری ان لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو اللہ کے تابع اور اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے حکومت کریں، نہ کہ سرکش حکمران بنیں۔
اسی مقصد کے تحت رسول اللہ ﷺ نے بین الاقوامی تعلقات کو خصوصی اہمیت دی، آپ کا ایمان، عزم، اللہ پر توکل اور خود اعتمادی ہی بین الاقوامی سیاست کی بنیاد بنے۔
آپ ﷺ نے دَورِ رسالت میں دینی اصولوں اور معیاروں کو انسانی شرافت اور سیاسی مصلحت کے دائرے میں رکھا اور آئیندہ آنے والوں کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔
اسلام ایک معاشرتی اور قانونی نظام:
اسلام ایک معاشرتی دین ہے، جس کے تمام احکام ایک مربوط اصولی نظام پر قائم ہیں۔ ایک مسلمان کے تمام تعلقات؛ چاہے اللہ تعالیٰ سے ہوں یا دوسرے انسانوں سے، اسلام کے احکام کے تابع ہی ہونے چاہئیں۔
اسی لیے اسلام نہ صرف ایک مذہبی اور اخلاقی نظام ہے بلکہ ایک مکمل قانونی نظام بھی ہے۔
اسلام کا معاشرتی پہلو تعلقات کے باب میں اس کی سب سے ممتاز خصوصیت ہے، جو اسے ایک عملی اور انسانی فطرت کے مطابق مکمل قانون فراہم کرنے والا دین ثابت کرتا ہے۔