اسلامی نظام کی خصوصیات کے تسلسل میں ہم آج آپ کے سامنے اس نظام کی چند خصوصیات پیش کرتے ہیں:
۳۔ اسلامی نظام انسان کی سماجی زندگی کے لیے بے مثال قانون ہے جو کمی اور غلطیوں سے پاک ہے، کیونکہ یہ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے وضع کیا گیا ہے، یہ انسانوں کی عقل کا پیداوار نہیں ہے، جس میں غلطیوں کا امکان ہو۔
یہی وجہ ہے کہ یہ ہر دور میں انسانوں پر نافذ کرنے کے قابل ہے، اس کے بجائے انسانی نظام اگر معاصر دور کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قوانین وضع کرتے ہیں تو وہ شاید قابلِ اطلاق وعمل ہوں مگر مستقبل کے لیے ان کا اطلاق ونفاذ کبھی نہیں ہو سکتا، کیونکہ انسانی عقل اس قابل نہیں کہ وہ مستقبل کی ضروریات کا ادراک کرسکے اور ان کے لیے تدابیر اختیار کرے۔
اسی طرح اگر کسی خاص جغرافیہ کی ضروریات کے مطابق قوانین وضع کیے جائیں تو وہ شاید اسی جغرافیہ میں قابلِ اطلاق ہوں مگر دیگر علاقوں کے جغرافیے میں ان کا اطلاق کبھی بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ وہاں کی ضروریات مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن اسلامی نظام وہ واحد نظام ہے جو ہر جغرافیہ میں، ہر وقت اور ہر زمانے کے لیے قابلِ اطلاق ہے، اس حوالے سے بہت سی نصوص موجود ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَمَا هُوَ إِلاَّ ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ}[القلم:52]۔
ترجمہ: یہ (قُرآن) تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔
اسی طرح فرمایا:
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِين}[الأنبياء:107]۔
ترجمه: اور ہم نے آپ (محمد) کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔
چونکہ اسلامی نظام کا ماخذ قرآن ہے اور قرآن ایک عالمی کتاب ہے، اس لیے اسلامی نظام فطری طور پر عالمی حیثیت اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ خصوصیت اپنے اندر کئی دیگر فوائد بھی رکھتی ہے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
الف: وہ نظام جو رب تعالیٰ کے جامع اور مانع قانون اسلام پر مبنی ہو، اختلافات سے پاک ہوگا؛ جبکہ وہ نظام جو احمد، محمود اور دیگر افراد کی آراء پر مبنی ہو، اس میں اختلافات لازمی طور پر پیدا ہوں گے، کیونکہ ہر شخص کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فرماتے ہیں:
{وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفا كَثِيرًا}[النساء:82]۔
ترجمه: اگرقرآن (الله تعالى کے علاوہ) کسی اور کی جانب سے ہوتا تو اس میں وہ ضرور بہت سے اختلافات پاتے۔
ب: انسانی نظام امتیازی سلوک کے نمونے ہوتے ہیں، ان نظاموں کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ یہ مختلف افراد کے ساتھ مختلف رویہ اپناتے ہیں مثلاً حامد کے ساتھ ایک طرح کا سلوک کیا جاتا ہے اور محمود کے ساتھ دوسری طرح کا سلوک روا رکھا جاتاہے، سیاہ فام افراد کے لیے ایک طرح کی جگہ مخصوص کی جاتی ہے اور سفید فام افراد کے لیے دوسری، لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون تمام انسانوں کے لیے بغیر کسی امتیاز یا تفریق کے یکساں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
ج: انسان فطری طور پر یہ پسند کرتا ہے کہ کوئی شخص اس کے سامنے سر جھکائے اور اس کی مکمل طور پر عبادت کرے، لیکن اسلامی نظام انسانوں کو ایک دوسرے کی بندگی سے آزاد کرتا ہے، اسلامی نظام میں کسی حکمران کو یہ اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ کسی فرد سے اپنی ایسی تعظیم کرائے جس کے نتیجے میں حکمران کے دل میں خدائی کا خیال پیدا ہو، معاذ اللہ!(سادہ الفاظ میں، اسلامی نظام میں فرعونیت کا تصور نہیں ہے۔)
اسلامی نظام انسانوں کی عزت اور آزادی کا ضامن ہے اور یہ انسانی تقدس کی حفاظت کرتا ہے، نہ کہ کسی فرد یا حکمران کو خود پر خدا بنانے کی اجازت دیتا ہے۔
حتی کہ ہر مسلمان فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر حاکم وقت شرعی حدود سے تجاوز کرے تو وہ اسے نصیحت کرے، رسول اللہ ﷺ نے اس حوالے سے فرمایا:
"مَن وَلِيَ منكم عملًا ، فأرادَ اللهَ به خيرًا ، جَعَلَ له وزيرًا صالحًا ، إن نَسِيَ ذَكَّرَه ، و إن ذَكَرَ أعانَه”۔(رواه النسائي)
ترجمه: "جو شخص آپ میں سے کسی کام کو ذمہ داری کے طور پر قبول کرے اور اللہ تعالیٰ اس کے لیے بھلائی لکھے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک نیک وزیر(مددگار) عطا فرمائے گا، اگر ذمہ دار شخص کچھ بھول جائے تو اسے یاد دلائے گا اور اگر اسے یاد ہو تو اس کی مدد کرے گا۔”
اسی طرح جب حضرت علی رضی الله عنه خلیفہ بنے تو اپنے پہلے خطبے میں فرمایا:
"فافزعوا إلى قوام دينكم، وإتمام صلاتكم، وأداء زكاتكم، والنصيحة لإمامكم… "
ترجمہ: اپنے دین کو مضبوط پکڑو، اپنے نمازیں قائم رکھو، زکوۃ دو اور اپنے حکمران کو نصیحت کرو۔
البتہ حکمران کو نصیحت کرنے کے خاص آداب ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے؛ تاکہ یہ نصیحت مؤثر واقع ہو اور شریعت کے اصولوں کے مطابق ہو، ان آداب میں سے ایک بہت اہم ادب حکمران کو چھپ کر اور خفیہ طور پر نصیحت کرنا ہے، جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”مَن أراد أن ينصحَ لسلطانٍ بأمرٍ فلا يُبدِ له علانية، ولكن ليأخذْ بيدِه فيخلوَ به، فإن قَبِل منه فذاك، وإلاَّ كان قد أدَّى الذي عليه له” (رواه أحمد في مسنده)
ترجمہ: جس شخص نے حکمران کو نصیحت کرنے کا ارادہ کیا، وہ اسے علانیہ نصیحت نہ کرے، بلکہ اُسے تنہائی میں لے جائے اور صرف اس کے ساتھ بات کرے؛ اگر وہ نصیحت قبول کرے تو یہ اچھا ہے اور اگر نہ کرے تو اس نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی ہے۔