اسلامی نظام کے فوائد و خصوصیات کے سلسلے میں مزید چند اہم خصوصیات کا تذکرہ کیے دیتے ہیں:
۶۔ فقر اور غربت کا خاتمہ:
فقر اور غربت پوری دنیا کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر قابو پانے میں تمام ممالک، تنظیمیں اور عالمی ادارے ناکام رہے ہیں، لیکن اسلام کا نظام اس میدان میں اتنا شفاف اور شاندار ہے کہ وہ ہر فرد کو غربت اور فقر سے بچاتا ہے۔ اسلام میں صرف زکوٰۃ کا فلسفہ ہی ایک ایسا فلسفہ ہے جسے عملی جامہ پہنانے سے ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی کسی فرد کو غربت کا سامنا نہ ہو۔
زکوٰۃ وہ واحد عمل ہے جس میں غریبوں اور فقراء کی مدد پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، اور اسلام میں زکوٰۃ کے علاوہ صدقات، خیرات اور بیت المال کی ذمہ داری ایسی خصوصیات ہیں جن سے دیگر تمام نظام محروم ہیں۔
۷۔ اسلام ایک عقیدوی نظام:
اسلامی نظام ایمان و عقیدے کی بنیاد پر قائم ہے، دنیا، زندگی اور معاشرت کو عقیدہ کے تناظر میں دیکھتا ہے؛ اسلامی نظام کی ساخت میں قوم پرستی، نسل پرستی اور وطن پرستی کا کوئی عمل دخل نہیں، اسلامی نظام میں افراد کے درمیان ایمان اور عقیدے کی بنیاد پر ایک مضبوط رشتہ ہوتا ہے؛ وہ اسلام کے رشتہ سے جڑے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے اس قدرتی رشتے کے آگے دنیا کے تمام دجالی نظام شکست کھاچکے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"المسلم أخو المسلم لا یظلمه ولا یخذله” (رواہ احمد فی مسندہ)
ترجمہ: مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے ذلیل (رسوا) کرتا ہے۔
ایک اور حدیث شریف میں فرمایا:
"مثل المؤمنین في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد” (رواہ مسلم)
ترجمہ: تمام مسلمان آپس میں محبت، شفقت اور ہمدردی کے لحاظ سے ایک جسم کی مانند ہیں۔
۸۔ ایک جامع نظام:
چونکہ اسلامی نظام کا منبع اور مصدر اسلام ہے اور اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے، اس لیے اس سے منسوب نظاموں کو بھی یہی خصوصیات حاصل ہیں۔ اسلامی نظام میں حاکم اور محکوم دونوں کے فرائض واضح ہیں، حاکم کو رعیت کے ساتھ کس طرح سلوک کرنا چاہیے اور محکوم کو اس حوالے سے کیسا مؤقف اپنانا چاہیے، یا یہ کہ اسلامی نظام غیر اسلامی نظاموں کے ساتھ کس طرح اور کن شعبوں میں تعامل کرسکتا ہے، یہ تمام باتیں اسلامی نظام میں بہت واضح ہیں۔
ہم حاکم کے بارے میں فقہ کے اس ایک قاعدے پر اکتفا کرتے ہیں:
"تصرف الإمام علی الرعیة منوط بالمصلحة”
ترجمہ: رعایا کے حوالے سے حکمران کا کسی بھی قسم کا تصرف مصلحت پر منحصر ہے، یعنی امام کو رعیت کی مصلحتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اسلام میں یہ اصول حاکم کے لیے مخصوص ہے۔
اسلام محکوم/رعایا کو مختلف ہدایات دیتا ہے:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ”
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی اطاعت کرو۔
اسلامی نظام کی صفتِ جامعیت کئی آیات سے ظاہر ہوتی ہے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شئ”
ترجمہ: اور ہم نے تم پر (اے پیغمبر) ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت کی گئی ہے۔
اسی طرح فرماتے ہیں:
"ما فرطنا في الکتاب من شئ”
ترجمہ: ہم نے اس کتاب (قرآن مجید)میں کچھ بھی چھوڑا نہیں۔ یعنی ہر چیز کی وضاحت کی گئی ہے۔
اس لیے اسلامی نظام زندگی کے تمام پہلوؤں کو شامل نظام ہے، زندگی کے ہر شعبے میں اس کی ہدایات اور حکمتِ عملی بہت واضح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فرمان اور ہر حکم ان نظاموں کے لیے ایک اصول اور ماخذ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کا دین جامعیت کی واضح نشانیاں ہیں، جن کے آگے دنیا کے تمام روشن خیال اور مفکرین اس وقت سے لے کر آج تک سرِ تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔