اسلامی نظام انسان کی بنیادی اور اہم ترین ضروریات میں سے ایک ہے، جس کی عدم موجودگی میں جہالت، تعاصب اور ظلم کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ انسان کی تخلیق سے لے کر آج تک یہ اسلامی نظام ہی ہے جس نے انسانی امور کو منظم کیا، عقیدے کی حفاظت کی اور معاشرتی انصاف کو نافذ کیا۔
جب دنیا جہالت کے گھور اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، معاشرتی انصاف ناپید تھا اور اشرافیہ نیچ ذات کے لوگوں کو نوچ کر کھا رہی تھی تو ان سب مصائب کی وجہ اسلامی نظام کی عدم موجودگی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ ہجرت کے بعد جب وہاں اسلامی نظام کی بنیاد رکھی گئی، حکومتی نظم و نسق کا مسودہ تیار ہوا، تو یہ تمام مصائب فنا ہو گئے۔ مدینہ منورہ نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا جس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔
یہی وجہ تھی کہ اس نظام کی حدود آہستہ آہستہ وسیع تر ہوتی چلی گئیں، یہاں تک کہ روم و فارس کی عظیم سلطنتیں بھی اس کے آگے سر نگوں ہو گئیں اور مصر، شام اور فلسطین کے علاقے اس پاکیزہ نظام کا حصہ بن گئے۔
حجاز کی سرزمین سے نکلنے والا یہ کاروان (اسلامی نظام) اتنی سرعت کے ساتھ خطے میں پھیلا کہ اس کا اندازہ تک نہیں لگایا جا سکتا تھا، کیونکہ تمام قبائل نے اتحاد و اتفاق کی اس علامت کو فوائد کا منبع جانا اور عملی طور پر محسوس کیا کہ اس نظام کے دائرے میں کس قدر سکون اور معاشرتی انصاف پایا جاتا ہے۔
میری کوشش ہے کہ یہاں اسلامی نظام کے فوائد و خصوصیات جمع کر دوں، اگرچہ مکمل طور پر ان فوائد کو جمع کرنا قلم کے بس سے باہر کا کام ہے لیکن پھر بھی میں اپنی سی کوشش ضرور کروں گا۔
اسلامی نظام کے فوائد و خصوصیات:
۱۔ الٰہی احکامات کا نفاذ و عمل درآمد:
مخلوق کی تخلیق اس لیے کی گئی کہ وہ خود پر عائد ذمہ داریوں کو ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات اور عبادات کو بجا لائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا». [هود/7]
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ عمل کے اعتبار سے تم میں کون ز یادہ اچھا ہے۔
اسی طرح فرمایا:
«و ما خلقت الجن والإنس إلا لیعبدون» [ الذاریات /56]
ترجمہ: اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
اسلامی نظام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلمان عبادات اور دیگر احکامات درست طریقے سے انجام دیں، جس کے لیے اس کے جدید ڈھانچے میں ایک آزاد ادارہ (امر بالمعروف، ونہی عن المنکر) بھی موجود ہے، جس کا کام مسلمانوں کو عبادات، اسلامی احکامات اور اچھے اخلاق کی تلقین کرنا ہے۔
ہم سب انفرادی طور پر اس بات کے مکلف ہیں کہ آخرت میں حساب کے لیے اس دنیا میں تیاری کریں جسے حدیث شریف میں "مزرعۃ الآخرۃ” (آخرت کی کھیتی) کہا گیا ہے۔ ہمیں وہ کام کرنا چاہیے جس سے ہمیں اخروی سعادت حاصل ہو، اور اس ہدف تک ہمیں اسلامی نظام ہی پہنچا سکتا ہے۔ اسلامی نظام کے دائرۂ عمل میں رہنے والے افراد اس بات کے مکلف ہیں کہ اس نظام کے اصولوں کو، جو کہ قرآن و حدیث سے ہی ماخوز ہیں، عملی جامہ پہنائیں۔
۲۔ لسانی، قبائلی اور علاقائی تعصب کا خاتمہ
اسلامی نظام دیگر نظاموں کی طرح پارٹیوں، دھڑوں اور فرقوں کو تسلیم نہیں کرتا، اپنی رعایا کو پشتون، تاجک، ازبک یا دیگر اقوام کے طور پر نہیں دیکھتا اور عرب و عجم کی کسی تفریق کو قبول نہیں کرتا۔
یہ حقیقت صحیح معنوں میں تب واضح ہوتی ہے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار پر غور کریں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ایسے دشمنوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کر دیا جو نسلوں سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آ رہے تھے۔ اوس اور خزرج اپنے حسب و نسب اور قبائلی تفاخر کے شعائر اور من گھڑت اقدار کی خاطر جنگوں میں مصروف تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں قائم کردہ نظام نے یہ سب خلیجیں پاٹ دیں اور سب کو ایک کلمۂ توحید پر جمع کر لیا۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ليس منا من دعا إلى عصبية وليس منا من قاتل على عصبية وليس منا من مات على عصبية». [رواه أبو داود]
ترجمہ: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عصبیت کی طرف بلائے، وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بنیاد پر لڑائی لڑے، اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو تعصب کا تصور لیے ہوئے مرے۔
اس لیے اسلامی نظام تمام رعایا کو برابر حقوق دیتا ہے، کسی قوم کو کسی دوسری قوم پر ترجیح نہیں دیتا، یہ خصوصیت اسلامی نظام کے ارتقاء اور پھیلاؤ کا ایک اہم سبب ہے۔