اکثر اوقات ہمارے حقیقی دشمن ہمارے قائدین کو ختم کرنے کے لیے منصوبے تشکیل دیتے ہیں اور ان کی کامیابی کی کوششیں کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ان کے فریب کو ناکام بنایا، اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے نام سے بعض لوگ تیار کیے اور ان کی تربیت کی تاکہ کفار کے اہداف آسانی کے ساتھ حاصل ہو سکیں۔ ان لوگوں مٰں سے ایک طبقہ خوارج العصر (داعشی) ہیں۔
آج جب امت مسلمہ ایک مسلمان اور مجاہد کی شہادت پر غمگین ہے، خوارج العصر (داعشی) ایک دوسرے کو انٹرنیٹ گروپس میں مبارکباد کے پیغامات بھیج رہے ہیں اور اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو ہلاکت کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کی ایسی جگہ وار کیا جس کا فائدہ کفار کو پہنچا، پوری تاریخ میں ہمارے اکثر اکابر قائدین خوارج کے ہاتھوں اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جن کی نسبت اسلام اور مسلمانوں سے کی جاتی ہے۔
جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ باغیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور اس شہادت کے بعد مسلمانوں میں تفرقہ اور ہزاروں مسلمانوں کی شہادت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ خوارج کے ہاتھوں شہید ہوئے، وغیرہ
لیکن موجودہ زمانے میں خوارج العصر (داعشی) اس کام میں سر فہرست ہیں۔ ۲۰۱۴ء سے خوارج العصر نے امت مسلمہ کے ایسے قائدین شہید کیے جو کفار کو دوسروں سے کہیں زیادہ مطلوب تھے، جیسے شیخ ابو خالد السوری کے سر کی قیمت امریکہ نے دس ملین ڈالر رکھی تھی لیکن خوارج العصر نے مفت میں ہی انہیں ایک خود کش حملے میں شہید کر دیا۔
اگر ان مجاہدین کی فہرست یہاں لکھی جائے جنہیں خوارج نے امریکہ اور اسرائیل کے لیے مفت میں شہید کیا، تو تحریر بہت طویل ہو جائے گی، اسی لیے بس اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
خوارج العصر نے اپنی پوری پوری کوشش کی کہ عالمی جہاد کے قائدین کو شہید کر دے، اور اگر ان کے ہاتھ نہ آسکیں اور انہیں کفار شہید کر دیں تو اس پر وہ خوشی سے قہقہے لگاتے ہیں جیسا کہ آج اسماعیل ہنیہ کی شہاد ت پر منا رہے ہیں۔
آپ تحقیق کر کے دیکھ لیں، اب تک خوارج العصر نے کفار کی نسبت زیادہ مسلمان پھر بالخصوص قائدین اور رہنما شہید کیے ہیں، اس میں بھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق ٹھہرتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يقتلون أهل الإسلام، ويدعون أهل الأوثان، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية” رواه البخاري، ومسلم.
وہ (داعشی) مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور کفار کو چھوڑ دیے ہٰں اور اسلام سے اس طرح نکل جاتے ہیں جیسے تیر اپنی کمان سے نکل جاتا ہے۔