فاروقی افغان
قیامِ پاکستان کے بعد وہاں ہمیشہ دو طرح کی حکومتیں رہی ہیں۔ ایک وہ جسے فوج اور خفیہ ادارے چلاتی ہے جسے اسٹیبلشمنٹ بھی کہا جاتا ہے ور دوسری عوامی یا سویلین حکومت ہے جو پارلیمنٹ اور دیگر ملکی اداروں پر مشتمل ہے۔ افغانستان سے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ عسکری شعبے میں بنتی رہتی ہے جسے چنے گئے اسٹریٹیجک ماہرین تیار کرتے ہیں۔ ان حکمت عملیوں میں سے ایک تزویراتی گہرائی نام کی حکمت عملی ہے، جسے عرف عام میں Strategic Depth Policy کہا جاتا ہے۔
اسٹریٹیجک ڈیپتھ ایک فوجی اصطلاح ہے، جس کا اصل مقصد کسی ملک کے اسٹریٹیجک علاقوں جیسے فوجی مراکز، ہوائی اڈے ، صنعتی زونز اور کاروباری مراکز کو جنگ کے دوران دشمن کے حملوں سے دور رکھنا ہوتا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے اسٹریٹیجک ڈیپتھ کی اصطلاح پہلی بار پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے متعارف کروائی۔ اس کے بقول سوویت یونین کی شکست کے بعد افغانستان آزاد ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی اسٹریٹیجک ڈیپتھ حاصل کریں۔ تاکہ ہم اپنے قومی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔
شروع میں یہ حکمت عملی صرف عسکری تھی، لیکن اب اس میں سیاسی اور معاشی اہداف بھی شامل کئے گئے ہیں۔
ذیل میں ان تمام حصوں پر مختصر روشنی ڈالیں گے۔
۱۔ عسکری حصہ
انڈیا اس خطے میں پاکستان کا سب سے اہم حریف سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک نے ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک تقریباً تین جنگیں لڑ ی ہیں جو سب کے سب پاکستان نے ہارے ہیں۔ عسکری ماہرین کے مطابق پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع انڈیا کے مقابلے میں کوئی طبعی رکاوٹ نہیں رکھتا اور انڈیا کے لیے پاکستان کے اسٹریٹیجک مقامات، ہوائی اڈے، کراچی اور لاہور جیسے بڑے صنعتی شہروں کو نشانہ بنانا بہت آسان ہے۔ قوی امکان ہے اس بات کا کہ پاکستان انڈیا کے خلاف طویل جنگ کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا اور انڈیا کے لیے کافی ممکن ہے کہ وہ بہت کم مدت میں پاکستان کو اپنی گرفت میں لے سکے گا۔
اس خطرے سے نمٹنے کے لئے پاکستان نے یہ منصوبہ تیار کر لیا ہے کہ وہ اپنے جنگی ساز و سامان اور فوج ایک محفوظ مقام پر لے جائے تاکہ وہاں سے دشمن پر جوابی حملہ کر سکے۔ ان کے خیال میں ایسی جگہ افغانستان ہی ہوسکتا ہےاور یہ سب کچھ تب ممکن ہے جب وہاں ان کی کٹھ پتلی حکومت برسرِ اقتدار ہو، خاص کر ڈیورنڈ فرضی لکیر سے ملحقہ صوبوں میں پاکستان کی حمایت یافتہ، اسٹریٹیجک ڈیفنس فورسز (جو افغانستان نیشنل آرمی کا حصہ ہو) موجود ہو۔ اور اگر انڈیا کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو پاکستانی افواج ان کے ساتھ مل کر انڈین آرمی کے خلاف جنگ کرے۔
پاکستان کی ایران کے حوالے سے بھی یہی سوچ موجود تھی۔ ۱۹۶۵ء میں انڈیا کے خلاف جنگ کے دوران زیادہ تر عسکری وسائل وہاں منتقل کیے گئے۔ جب ایران میں خمینی انقلاب برپا ہوا ، تو ایران پاکستان کی گرفت سے نکل گیا اور اس نے اپنی پوری توجہ افغانستان کی جانب مبذول کر دی۔
پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ایک سابق سربراہ اسد درانی کا کہنا ہے کہ ہم اس پر مجبور ہو گئے کہ انڈیا کی جغرافیائی برتری کے مقابلے میں افغانستان میں اپنی اسٹریٹیجک ڈیپتھ حاصل کریں۔
اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان میں ایک کمزور سیاسی نظام اور معیشت ہو جس کا ذکر ذیل میں کرتے ہیں۔
۲۔ سیاسی حصّہ
پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں ایک ایسا سیاسی نظام موجود ہو جس کی ساخت اور ڈھانچہ ان کا تشکیل کردہ ہو اور اس کا انتظام زیادہ تر ان کے کنٹرول میں ہو۔ ان کی کوشش ہے کہ یہاں ایک کمزور پارلیمانی جمہوریت بنے تاکہ پارلیمنٹ کے ممبران ان سے پیسے لیں اور افغانستان کے زیادہ تر فیصلے پاکستان کے مفاد میں کریں۔
سابق جمہوریت کے دوران افغانستان کے لیے پاکستان کے ایک سفیر نے کہا تھا کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے دوران کئی امیدوار ان کے ہاں آئے مدد مانگی اور بدلے میں یقین دہانی کرائی کہ اگر پاکستان ان کی مدد کرے گا تو اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات ان کے مفاد میں ہوں گے۔
اس حکمت عملی کے مطابق ان کا منصوبہ ہے کہ افغانستان کے پاس ایسی فوج اور انٹیلی جنس ہو جو ظاہر میں علامتی ہو اور حقیقت میں اس کی مکمل سربراہی ان کے اپنے لوگ (پاکستان)کر رہے ہوں۔
پاکستان کے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے کھل کر کہا تھا کہ ہم نے امریکیوں کے ساتھ سوویت یونین کے خلاف تعاون کرنے سے یہ حق حاصل کر لیا کہ افغانستان میں ہماری مرضی کی حکومت ہو۔
جنرل ضیاء الحق سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کیوں اور کس مقصد کے لئے مجاہدین کی مدد کرتے ہیں، تو اس نے جواب میں کہا کہ سوویت یونین کی شکست کے بعد یہی مجاہدین وہاں ہماری مرضی کی حکومت بنائیں گے۔ میں قطعا اپنے پڑوس میں ایسی حکومت نہیں برداشت کر سکتا جو سوویت یونین کی باقیات سے بنی ہو، جو انڈیا کے ساتھ محبت رکھتی ہو اور میرے خاک کا دعوے دار ہو۔
اس حکمت عملی کے مطابق پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان سے خارجہ پالیسی کا حق بھی سلب کر لے اور افغانستان کی خارجہ حکمت عملی اپنے کنٹرول میں لے لے۔ مقتدر حکومت اپنی خارجہ پالیسی پاکستان کی مرضی کے مطابق بنائے، انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کمزور یا مکمل طور پر ختم کر دے، اور مسئلۂ کشمیر میں پاکستانی مؤقف کی تائید کرے۔
وحید مژدہ نے لکھا ہے کہ جب امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کی آمادگی ظاہر کی تو طالبان نے اس سلسلے میں مذاکرات کے لیے قطر میں دفتر کھول دیا۔ پاکستان نے اس عمل کی شدید مخالفت کردی، کیونکہ ان کی خواہش تھی کہ یہ مذاکرات ان کے ذریعے سے ہو، اس لیے انہوں نے امارت اسلامیہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے قطر دفتر کے بانی محترم ملا عبد الغنی برادر کو گرفتار کر لیا۔
۳۔ اقتصادی حصہ
اسٹریٹیجک ڈیپتھ کا ایک اور اہم حصہ اقتصادی سیکٹر ہے۔ پاکستان نہیں چاہتا کہ افغانستان ترقی کرے اور اقتصادی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کی اپنی پیداوار نہ ہو، اور خام مال پاکستان منتقل کیا جائے، وہاں یہ پروسس ہو، اور پھر کئی گنا قیمت کے ساتھ واپس افغانستان کو فروخت کیا جائے۔
پاکستان کا منصوبہ ہے کہ افغانستان اپنے کارخانے اور فیکٹریاں نہ بنائے اور وہ افغانستان کی منڈیوں کو اپنی مصنوعات سے بھر دے۔
اسٹریٹیجک ڈیپتھ حکمت عملی کا اقتصادی سیکشن بہت خطرناک ہے۔ اس حکمت عملی کے مطابق پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان ہمیشہ ان ہی پر انحصار کرنے والا ملک رہے۔ افغانستان کے پاس معدنیات نکالنے کے لیے ماہرین اور مشینری نہ ہو اور تمام معدنیات پاکستانی کمپنیز اور انجینئرز کے ذریعے نکالی جائیں اور پھر عالمی منڈی میں پاکستان کے نام سے ہی فروخت ہوں۔
اس ظالمانہ پالیسی کے مطابق افغانستان میں معاشی انفراسٹرکچر اور وسائل فعال نہ ہو، افغانستان میں ڈیم نہ بنائے جائیں، اور اگر بنائے جائیں تو زیادہ تر ایسے مقامات پر ہو جس سے پاکستان کو کوئی نقصان نہ ہو۔ افغانستان کے راستے پاکستانی تجارتی سامان وسطی ایشیا تک بغیر ٹرانزٹ کے بھیجا جائے۔
اگر اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے مندرجہ بالا تین حصے پورے نہ ہوئے تو پاکستان کیا کرے گا؟
پاکستان جانتا ہے کہ اگر افغانستان میں ایک مضبوط اور خودمختار حکومت اقتدار میں آگئی، اس کی معیشت بہتر ہوئی اور ترقی کرلی ، تو پھر یہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ انڈیا کی جانب سے خطرہ بڑھ جائے گا اور ممکن ہے کہ ڈیورنڈ فرضی لکیر کا مسئلہ بھی سر اٹھا لے۔ اس خطرے کے نمٹنے کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کو جنگوں میں پھنسائے رکھیں۔ افغانستان کو جنگوں میں پھنسانا اس حکمت عملی کا آخری اور سب سے خطرناک حصہ ہے۔ وہ کس طرح اور کس ذریعہ سے افغانستان کو جنگ می پھنسانا چاہتے ہیں اس حوالے سے ایک مثال ذیل میں ذکر کرتے ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے ایک انٹرویو میں کہا:
"۱۹۷۳ء میں احمد شاہ مسعود، گلبدین حکمتیار، برہان الدین ربانی اور کابل یونیورسٹی کے چند طلباء نے سردار داؤد کے خلاف بغاوت کر دی اور پاکستان میں پناہ لے لی۔ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مجھے بلا کر کہا کہ ۲۰ سال بعد یعنی ۱۹۹۳ء میں ڈیورنڈ معاہدہ ختم ہو جائے گا، اور افغانی پھر ضرور اپنے علاقے واپس مانگیں گے، اب کوئی اور چارہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ افغانستان کو غیر مستحکم کیا جائے۔ تم افغانستان سے آئے ان لوگوں کو اپنے ہاتھ میں لے لو اور انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرو۔ میں نے ان تینوں رہنماؤں اور نوجوانوں کو بلایا اور ان سے پشاور کے بالاحصار میں ملاقات کی۔ رہنماؤں نے سردار داؤد کے خلاف سیاسی جدوجہد کا انتخاب کیا جبکہ نوجوانوں نے عسکری جدوجہد کے لیے ہم سے مدد مانگی۔ میں نے یہ معاملہ مسٹر بھٹو تک پہنچایا۔ بھٹو نے یہ معاملہ فوج کی سپیشل فورسز (SSG) سے ذکر کیا۔ سپیشل فورسز نے ان نوجوانوں کو عسکری تربیت دی اور تربیت مکمل ہونے پر پیسوں کے علاوہ تقریبا ۳۰۰ رائفلز بھی دئیے اور انہوں نے واپس جا کر افغانستان میں جنگ شروع کر دی۔ اس طرح ہم نے افغانستان کو آگ کے شعلوں میں جھونک دیا۔”
پاکستان نے افغانستان کے مادی اور معنوی اثاثوں کو لوٹا، افغان معیشت کو شدید نقصان پہنچایا، افغانستان کے بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی وسائل کو تباہ کیا اور کوشش کی کہ اس ظالمانہ حکمت عملی کے تمام حصوں پر پوری طرح عمل درآمد کیا جائے لیکن امارت اسلامیہ نے ان کے ان ارادوں اور خواہشات کو خاک میں ملا دیا۔ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کے سامنے بند باندھا اور افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے اپنی کمر کس لی۔ اس چیز نے پاکستان کو بہت پریشان کر دیا اور اس نے فوری طور پر امارت کے خلاف نئی صف بندی کر لی، تمام حربے بروئے کار لائے، اور عالمی سٹیج پر امارت کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا، عملی طور پر داعش کے دہشت گرد گروہ اور منبع شر و فساد کی حمایت اور فنڈنگ کی اور امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا۔