استعمار کے اقدامات اور مسلمانوں کی بیداری:
جب خلافت عثمانی کا سقوط ہوا تو مشرق اور مغرب کے کافروں، خاص طور پر یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے آپسی اختلافات اور دشمنیوں کو بھلا دیا، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ناجائز اولاد مانتے تھے (العیاذ باللہ) اور عیسائی یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قاتل سمجھتے تھے۔
لیکن اس کے باوجود، وہ مسلمانوں کے خلاف متحد ہو گئے، اور امت مسلمہ کی عظیم سرزمین و جغرافیہ کو درندوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، اور سرطان جیسا پودا (اسرائیل) اسلامی دنیا کے دل (فلسطین) میں اگادیا۔
مسلمانوں کے باقی علاقوں کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کر دیا اور وہاں کے لوگوں کو فکری اور ثقافتی غلامی میں مبتلا کیا، ان چھوٹے ممالک کے حکمرانوں کو ایسی قیادت دے دی جو استعمار کے نمائندے بن کر ان کی ہدایات کے مطابق عمل کرتے، تاکہ لوگوں کو فکری ارتداد کی طرف مائل کیا جا سکے۔
پھر انہوں نے ایسے ادارے اور تنظیمیں قائم کیں جنہوں نے امت مسلمہ کی شناخت کو کمزور کرنے کی کوشش کی، انہوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات پھیلانے کی کوشش کی، مذاہب، جماعتوں اور گروپوں کے درمیان فسادات پیدا کیے اور لوگوں کو ایسا اسلام دکھانے کی کوشش کی جو زندگی کے مسائل کے حل کے لیے ناکافی ہو۔
ان کا سب سے خطرناک حملہ تعلیم اور تربیت کے میدان میں تھا، انہوں نے یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کی صنعت اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں رکاوٹ ڈالیں اور انہیں پیچھے رکھیں، اس کے لیے انہوں نے طویل المدتی منصوبے بنائے تاکہ مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو مادی اور معنوی لحاظ سے اپنے دین سے بیگانہ کر دیں اور انہیں استعماری نظام کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ دیں۔
اگرچہ یہ کوششیں طویل مدت میں نتیجہ خیز ہوتی ہیں، لیکن ان کا نقصان گہرا اور خطرناک ہے، یہ سب کچھ "روشن خیالی” اور "خیر خواہی” کے نقاب میں کیا گیا تھا، تاکہ عام لوگوں کو دھوکہ دیا جا سکے؛ جب استعمار نے اقتدار حاصل کیا، تو انہوں نے اپنے بدترین قوانین نافذ کیے، لوگوں کو دبایا اور عوامی امنگوں کو پاؤں تلے روند دیا۔
انہوں نے یہی پالیسی ترکی، شام اور دیگر مقامات پر اپنائی، کمال اتاترک نے سب سے پہلے قومی اتحاد کے نعرے کے تحت اقتدار حاصل کیا، لیکن جب وہ اقتدار میں آیا، تو انہوں نے اسلام کے تمام احکام کو لوگوں کی زندگی سے نکال دیا اور مغرب کی بے دینی کو ترکی پر مسلط کیا، جس نے اس قوم کو ہمیشہ کے لیے مسائل کا شکار کر دیا۔
استعماری قوتوں نے صرف فکری غلامی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ خلیجی تیل کی دولت کو حاصل کرنے کے لیے آپس میں مقابلہ شروع کیا، لیکن ان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان تھا، جس نے کبھی بھی استعمار کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا۔
سوویت یونین نے کے سامنے سوائے جنگ اور افغانستان کو اپنی کالونی بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا، اسی لیے ۱۳۵۸ھ شـ میں سوویت یونین نے مکمل فوجی طاقت کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا، یہ جنگ نو سال تک جاری رہی اور "سیلنگ” کی تحقیقات کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں ۹ فیصد لوگ معذور ہو گئے اور ۳۳ فیصد بے گھر ہو گئے۔
لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت یہ تھی کہ اس نے اس عظیم استعمار کو غریب، بے سہارا ایمان والے مجاہدوں کے مقابلے میں شکست دی، رب العالمین کتنی خوبصورتی سے فرماتے ہیں:
[وَكَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ]۔ (البقرة: 249)
"اور کتنی ہی کم تعداد والی جماعتوں نے اللہ کے حکم سے بہت بڑی جماعتوں پر غلبہ پایا، اور اللہ تعالیٰ صابروں کے ساتھ ہے!” (البقرة: 249)
سوویت یونین نے نہ صرف اس جنگ میں شکست کھائی، بلکہ اندر سے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر مسلمان اکثریتی علاقوں نے اپنی آزادی کا اعلان کیا، سوویت یونین کے انہدام کے بعد مغرب نے اپنے آپ کو دنیا کی واحد سپر پاور طاقت قرار دیا اور اپنے استعماری منصوبوں کو مزید وسعت دی۔
اس حوالے سے تمام مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ اللہ جل جلالہ کے وعدوں پر پختہ یقین رکھیں، اپنے حالات کا جائزہ لیں اور کبھی بھی دشمنانِ اسلام (مشرق اور مغرب) کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں، بلکہ انہیں اللہ جل جلالہ پر توکل کرنا چاہیے، رجوع اسی کی طرف کرنا چاہیے اور ہمیشہ یہ حکمِ الہی ذہن میں رکھنا چاہیے، جو فرماتا ہے:
[ وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ]
"ظالموں کی طرف مائل نہ ہوں، ورنہ آگ کا عذاب تمہیں پکڑ لے گا اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوگا، پھر تمہیں مدد نہیں ملے گی!”
اسی طرح رب العالمین مسلمانوں کو سورۃ المائدہ میں سخت تنبیہ فرماتے ہیں:
[ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ]
"اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو شخص تم میں سے ان کی دوستی اختیار کرے گا، وہ انہی میں سے ہے، بے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتے۔”