القدس؛ اُمت کا زخمی دل | دوسری قسط

ابو ہاجر الکردی

مسجد اقصیٰ؛ مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ کے قبلہ بننے کی حکمت:

جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے سولہ ماہ تک بیت المقدس (یعنی مسجد اقصیٰ) کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی، لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے دلوں میں یہ آرزو تھی کہ ایک دن وہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں، کیونکہ خانہ کعبہ سے ان کا عشق اتنا گہرا تھا کہ وہ کسی دوسرے مقام کو حضرت آدم اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے قبلہ کے برابر نہیں سمجھتے تھے۔

لیکن وہ رب العالمین کے حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرتے ہوئے، بیت المقدس کو قبلہ قرار دینا صحابہ کے لیے اللہ کی طرف سے ایک عظیم امتحان تھا؛ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ صرف یہی سوچتے تھے کہ کسی بھی صورت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں اور اللہ کے احکام کے سامنے سرِتسلیم خم کریں، چاہے یہ ان کی چاہت کے مخالف کیوں نہ ہو۔

جب اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے امتحان میں ڈالا، تو اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں جن میں مسجد الحرام کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا۔

’’وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ‘‘

ترجمہ: اور جہاں سے بھی تم نکلو، اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کرو اور تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے چہرے بھی اسی طرف کر لو۔

درحقیقت قبلہ کی تبدیلی ایک بڑا امتحان تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ‘‘

ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں معتدل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ ہوں اور ہم نے جس قبلے کا حکم دیا تھا، وہ صرف اس لیے تھا کہ ہم یہ جان سکیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اپنے قدموں پر پلٹ جاتا ہے، اور یہ (تبدیلی) اگرچہ بڑی بات تھی، لیکن ان لوگوں پر مشکل نہیں تھی جنہیں اللہ نے ہدایت دی۔

یہودیوں نے اس تبدیلی کی وجہ سے مدینہ کے شہر میں بدامنی اور افواہیں پھیلانا شروع کردیں، تو اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے انہیں اس کا جواب دیا:

’’سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ‘‘

ترجمہ: بہت جلد لوگ کہیں گے: ’’انہیں کس چیز نے اپنے قبلے سے پھیردیا جس پر وہ پہلے تھے؟ تم کہہ دو: ’’مشرق اور مغرب اللہ کے ہیں، وہ جسے چاہے ہدایت کے راستے کی طرف راہنمائی دے۔

پھر یہودیوں نے یہ افواہیں پھیلائیں کہ مسلمانوں کے وہ نمازیں جو پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی تھیں، اب ضائع ہوگئیں، لیکن اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے ان کے جواب میں فرمایا:

’’وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ‘‘۔

ترجمہ: ’’اللہ ایسا نہیں ہے کہ تمہارے ایمان (عبادتوں اورنمازوں) کو ضائع کر دے‘‘۔

ان آیتوں میں قبلہ کی تبدیلی کی حقیقت واضح ہو گئی ہے، کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے اسے خاص مقام دیا ہے اور اس کا انتخاب فرمایا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ‘‘۔

ترجمہ: ’’تم جہاں بھی رخ کرو، وہاں اللہ ہے‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی سمت کی طرف رخ کرنا بذات خود مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود اللہ کے حکم کی اطاعت ہے، قبلہ کی تبدیلی کی حکمت اور فلسفہ یہ ہے کہ جب اللہ کا حکم تھا کہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھو، تو صحابہ نے اس کی اطاعت کی اور اب جب حکم آیا کہ مسجد الحرام کی طرف رخ کرو، تو قیامت تک یہ اطاعت کی جائے گی۔

’’وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا‘‘۔

ترجمہ: ’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک معتدل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہوں‘‘۔

Author

Exit mobile version