اسلامی امت میں داعش جیسے گروہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ غیرمسلم ممالک کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق یا تعامل ناجائز ہے اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ عقیدہ اکثر قرآن، سنت اور سیرتِ نبوی کی غلط تشریح کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے؛ اس مقالے میں ہم کوشش کریں گے کہ شریعت کی روشنی میں امارتِ اسلامی کے غیر ملکی تعلقات کی مشروعیت، ضرورت اور ان تعلقات کے مقاصد کو واضح کریں۔ اسلام نے بین الاقوامی تعلقات کے لیے ایک متوازن اور واضح فریم ورک وضع کیا ہے، جو امن، انصاف، باہمی احترام اور مسلمانوں کے مفادات پر مبنی ہے۔
اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
’’لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ‘‘.(الممتحنة: ۸)
ترجمہ: اللہ تمہیں ان لوگوں سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں لڑتے نہیں اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو۔
اس آیت میں اللہ تعالی حکم دیتے ہیں کہ ایسے غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک اور انصاف کرو جو مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کرتے اور جو مسلمانوں کے داخلی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے دوران دیگر اقوام اور ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔
۱۔ امن معاہدے:
اس حوالے سے حدیبیہ کا معاہدہ ایک واضح مثال ہے، جسے رسول اللہ ﷺ نے قریش کے ساتھ امن کے لیے کیا۔
۲: سفیروں کا بھیجنا اور خطوط کا تبادلہ:
رسول اللہ ﷺ نے وقت کے حکمرانوں کو اسلام کا پیغام پہنچانے اور امن کا پیغام دینے کے لیے خطوط بھیجے۔
شریعتِ اسلام باہمی تعامل کے اصول کی تائید کرتی ہے، یہ اس لیے ہے کہ مسلمان اپنے مفادات کا تحفظ کریں اور ان لوگوں کے ساتھ تعاون کریں جو جنگ نہیں کرتے۔
امارت اسلامی ایک خودمختار اسلامی ریاست کی حیثیت سے اپنی عوام کی مادی اور روحانی ضروریات پورا کرنے کی ذمہ دار ہے اور اس کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا استوار کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ تعلقات منقطع ہو جائیں تو عوام کو اقتصادی مشکلات، تجارتی پابندیوں اور عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا، جو کہ مسلمانوں کی بھلائی اور مصلحت کے خلاف ہے۔
امارت اسلامی کی کوشش ہے کہ اپنے ہمسایہ ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ امن و سکون کے تعلقات قائم کرے؛ کیونکہ جنگ کا تسلسل صرف مسلمانوں کی خونریزی کا باعث بنتا ہے جو امت مسلمہ کی ترقی کو روکنے کے علاوہ کچھ نہیں، دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے ذریعے امارت اسلامی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اسلام کا حقیقی پیغام دنیا تک پہنچا سکے اور ان غلط فہمیوں کو دور کرے جو اسلام کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کافروں کے ساتھ ہر قسم کا تعلق حرام ہے، یہ بات غلط ہے کیونکہ اسلام نے اس قسم کے تعلقات کو مطلق طور پر منع نہیں کیا؛ قرآن و سنت کی روشنی میں صرف وہ تعلقات ممنوع ہیں جو مسلمانوں کے دین، عزت یا خودمختاری کو نقصان پہنچائیں۔ لیکن اگر یہ تعلقات مسلمانوں کی مصلحت کے لیے ہوں، تو یہ نہ صرف جائز ہیں، بلکہ یہ ایک شرعی حکم بھی ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کفار کے ساتھ معاہدے کرنا احکامِ جہاد کے ساتھ خیانت ہے، لیکن اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی کافروں کے ساتھ معاہدے کیے ہیں، جیسے کہ حدیبیہ کا معاہدہ؛ یہ معاہدے مسلمانوں کے مفاد کے لیے تھے اور ان کا مقصد اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ تھا، لہذا اس طرح کے معاہدے جہاد کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ دعوتِ اسلام کا ذریعہ بھی ہیں۔
بعض داعشی عناصر دعویٰ کرتے ہیں کہ امارتِ اسلامی کافروں کی حمایت حاصل کررہی ہے اور ان کے ساتھ سمجھوتہ کررہی ہے؛ اس کا جواب یہ ہے کہ امارتِ اسلامی صرف ایسے تعلقات رکھنے کی کوشش کرتی ہے جو امتِ مسلمہ کے مفاد میں ہوں، ان تعلقات کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان ایک خودمختار اسلامی ریاست کے طور پر قائم رہے اور مسلمانانِ عالم کی مشکلات کو حل کیا جائے۔ لہذا یہ تعلقات اسلامی اصولوں کے خلاف بالکل بھی نہیں ہیں۔
امارت اسلامی کے خارجہ تعلقات کے مقاصد:
۱۔ قومی خودمختاری کا تحفظ:
امارت اسلامی کسی بھی ملک کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتی، تعلقات صرف باہمی احترام کی بنیاد پر قائم کیے جارہے ہیں۔
۲۔ اقتصادی ترقی:
امارت اسلامی کوشش کرتی ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرے تاکہ عوام کی ضروریات پوری کی جاسکیں اور مسلمانوں کی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکے۔
۳۔ عالم اسلام کا اتحاد:
امارت اسلامی کی کوشش ہے کہ اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد اور تعاون کو فروغ دے۔
۴. امن اور سلامتی کا قیام:
امارت اسلامی اس لیے تعلقات رکھتی ہے تاکہ افغانستان کے اندر اور باہر امن کا ماحول قائم کیا جا سکے۔
امارت اسلامی اپنے خارجہ تعلقات شریعتِ اسلام کی روشنی میں قائم کرتی ہے اور یہ تعلقات امتِ مسلمہ کے مفادات کے تحفظ، امن کے قیام اور اقتصادی ترقی کے لیے ہیں؛ جو گروہ ان تعلقات کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں سوچنا چاہیے اور یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اسلامی شریعت امن، عدل اور مصلحت کے اصولوں کو ترجیح دیتی ہے۔
امارتِ اسلامی کسی بھی ایسے تعامل یا عمل کو اختیار نہیں کرتی جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہو، بلکہ ہر فیصلہ شریعت اور مسلمانوں کی فلاح کے لیے کیا جاتا ہے۔ داعشیوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی شریعت کو حقیقی معنوں میں سمجھیں اور ایسے ہر عمل سے بچیں جو مسلمانوں کے درمیان تفریق اور کمزوری کا باعث بنے۔
وقت کی ضرورت یہ ہے کہ تمام مسلمان متحد ہوکر امت کے مفادات کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں۔