القدس تاریخ کے آئینے میں:
فلسطین کی سرزمین کے اصل اور ابتدائی باشندے یبوسی تھے، جنہوں نے سینکڑوں سال پہلے جزیرہ نما عرب سے اس طرف ہجرت کی تھی۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام تقریباً ۱۸۰۰ قبل مسیح میں بابل سے ہجرت کرکے فلسطین کی سرزمین تک پہنچے، اس علاقے کے لوگوں نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور یبوسیوں کے بادشاہ (ملک صادق) نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا۔
پھر بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام کے بعد تقریباً ۱۳۳۰ قبل مسیح میں یشوع کی قیادت میں فلسطین پر قابض ہوگئے لیکن القدس اور یبوس قلعہ ان کے زیر اثر نہیں آیا۔ تقریباً ۱۰۰۰ قبل مسیح میں حضرت داود علیہ السلام نے القدس کو فتح کیا، وہ ۹۶۱ قبل مسیح میں وفات پا گئے اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام ان کی جگہ ان کے جانشین بنے۔
حضرت سلیمان علیه السلام نے القدس کو شاندار طریقے سے دوبارہ تعمیر کیا، اس سلسلے میں انہوں نے مختلف قیمتی اور نایاب دھاتوں اور پتھروں کا استعمال کیا حتیٰ کہ جنات سے بھی کام لیا۔ حضرت سلیمان علیه السلام کی حکمرانی ۹۲۲ قبل مسیح تک جاری رہی لیکن یبوسی پھر بھی وہیں آباد رہے۔
۶۰۵ قبل مسیح کو بخت نصر بابلی نے القدس پر حملہ کیا اور ۵۹۷ قبل مسیح میں اس کے بادشاہ کو خاندان سمیت، ۸ سے ۱۰ ہزار افراد، بیت الرب اور القدس شہر کے خزانے اور ۳۰ سے ۴۰ ہزار کاریگروں کو بابل منتقل کردیا۔ پھر۵۸۶ قبل مسیح میں بخت نصر نے دوبارہ اپنے لشکر کو القدس بھیجا، اس کے بادشاہ کو قید کرلیا اور یروشلم کو تباہ کرکے اسے ملبے اور پتھروں میں تبدیل کردیا، اس کے ساتھ ہی یہودیوں کی حکمرانی عملاً ختم ہوگئی۔
۵۳۹ قبل مسیح میں ایرانی بادشاہ کوروش نے یہودیوں کی مدد سے بابل اور شام فتح کیے اور الالقدس ۳۳۲ قبل مسیح تک ایرانی حکمرانوں کے تحت رہا۔ ۳۳۲ قبل مسیح میںسکندر نے القدس اور فلسطین بغیر کسی لڑائی کے فتح کیا۔
۶۳ قبل مسیح میں رومی جنرل پومپی نے القدس کا تین مہینے تک محاصرہ کیا اور شہر کو قبضہ کرنے کے بعد اس کے زیادہ تر رہائشیوں کو قتل کردیا۔ ۳۷ قبل مسیح میں ہیروڈس نے القدس کا بادشاہ بننے کے بعد ۲۷ قبل مسیح میں بیلاطس کو شہر کا حکمران بنایا۔ اسی بادشاہت کے دوران حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعات رونما ہوئے؛ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، جو کہ حضرت عمران کی بیٹی حضرت مریم کے صاحبزادے تھے، نو ماہ کی حمل کے بعد منگل کے دن ۲۴ دسمبر کو بیت اللحم میں پیدا ہوئے۔
عیسوی زمانہ:
حضرت عیسی علیہ السلام کو یہودیوں کے شدید مظالم سے پالا پڑا، بالآخر یہود نے ان کے قتل کا فیصلہ کیا، حضرت عیسی علیہ السلام کے ایک شاگر یہوذا اسخریوطی نے ۳۰ درہم کے بدلے ان کی خفیہ جگہ کی نشاندہی کر ڈالی لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھاکہ اسی شاگرد کو ہوبہو حضرت عیسی کا ہم شکل بنا ڈالا اور اس طرح یہود نے یہوذا کو قتل کردیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے۔
الله تعالی فرماتے ہیں:
[وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا]
یہودیوں نے کہا: ہم نے مریم کے بیٹے، عیسیٰ، اللہ کے پیغمبر کو قتل کیا ہے، حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ ہی صلیب پر چڑھایا بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ ہو گیا تھا اور وہ لوگ جو اس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں، شک میں ہیں۔ ان کو اس بارے میں کوئی علم نہیں، وہ صرف گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور یقیناً انہوں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا اور اللہ عزت والا اور حکمت والا ہے۔
عیسوی دور میں دونوں ملتوں (یہود و صلیبیوں) نے بیت المقدس کو اپنے قبلہ گاہ کے طور پر تسلیم کیا تھا باوجود اس کے کہ ایک دوسرے کے خلاف دشمنی کا سلسلہ جاری تھا، قرآن ان کے اختلافات کو اس طرح بیان کرتا ہے:
"وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ…”
یہودیوں نے کہا: نصارٰی حق پر نہیں ہیں اور نصارٰی کہتے تھے کہ یہودی حق پر نہیں ہیں، حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے تھے۔
۷۰ عیسوی میں رومی جنرل ٹائٹس نے القدس کو محاصرے میں لیا اور شہر کو لوٹ لیا، اس نے شہر کو جلا ڈالا اور لوگوں کو قتل و زخمی کیا، سینکڑوں یہودیوں کو قید کیا اور رومی بازاروں میں فروخت کیا۔ ۱۳۵ عیسوی میں شہنشاہ ہدیریان نے یہودیوں کو شکست دی اور یروشلم کو تباہ کردیا۔ اس نے یہودیوں کو شہر چھوڑنے کا حکم دیا؛ یہودی مصر، پہاڑوں اور وادیوں کی طرف فرار ہو گئے۔
اب یونانیوں نے شہر پر قبضہ کرلیا اور اس کے بعد القدس شہر کا نام "ایلیاء” رکھ دیا گیا۔ ۱۳۵ عیسوی سے ۶۱۴ عیسوی تک شام یونانیوں کے زیر اقتدار رہا اور القدس پُرامن رہا لیکن جلد ہی یہودیوں نے فارس (ایرانی) فوج کی مدد سے مسیحیوں کا قتل عام اور گرجا گھروں کو تباہ کرنا شروع کیا۔ انہوں نے ۶۰ ہزار سے زیادہ مسیحیوں کو قتل کیا، جن میں سے ۵ ہزار کو ایک اجتماعی قبر (ماملاً) میں دفن کیا۔
یہودیوں نے کلیساؤں کو کھنڈرات میں بدل دیا اور اس صلیب کو توڑ دیا جسے مسیحی مقدس سمجھتے تھے۔ ۶۱۰ عیسوی میں ۶ اگست کو اللہ تعالیٰ نے اپنی برگزیدہ بندے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں مبعوث فرمادیا۔
۶۲۷ عیسوی میں رومی بادشاہ ہرقل نے ایرانیوں کو القدس سے نکال باہر کیا اور شہر کو فارسیوں اور یہودیوں سے صاف کیا۔ قرآن میں مذکورہ فتح کے حوالے سے فرمایاگیا:
"غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ”.