رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
"بدأ الإسلام غريباً وسيعود كما بدأ غريباً، فطوبى للغرباء”
ترجمہ: اسلام کی ابتداء اجنبی کی حیثیت سے ہوئی اور یہ عنقریب پھر حالت اجنبیت کی طرف لوٹ جائے گا پس اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہو۔
ابتداء میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام کا آغاز کیا، تو لوگوں کو اسلام عجیب و غریب لگا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے لیے یہ بات بھی قابل قبول نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو پیغمبر بنا کر کیوں بھیجا کسی فرشتے کو کیوں نہ بھیجا؟
پھر آخری زمانے میں لوگوں کو پھر سے اسلام عجیب و غریب نظر آئے گا اور اسلامی امور و احکام ان کے لیے قابل قبول نہ ہوں گے۔
افغانستان پوری دنیا میں وہ واحد ملک ہے کہ جس میں امارت اسلامیہ کے نام سے ایک شرعی نظام نافذ اور حاکم ہے۔ پھر بھی مغربی جمہوریت کے پالے لوگ اس نظام کو آمرانہ نظام یا اجارہ داری کی حکومت کہتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام بس یہی ہے کہ کلمہ پڑھو، نماز ادا کرو، روزے رکھو، زکوۃ ادا کرو اور حج کرو، لیکن اسلامی نظام کے دائرہ کار میں آنے والے معاملات، حدود، قصاص، اور سیاست (انتظامِ حکومت) ان کی نظر میں دین سے الگ اور جدا چیزیں ہیں۔
حالانکہ ایسا نہیں ہے، اسلام انسان کی زندگی کے مکمل طرزِ حیات کو اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر اسے اس پر پابند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان وہ ملک ہے کہ جس میں دین کامل اللہ تعالیٰ کے لیے ہے چاہے معاملہ عقائد کا ہو یا معاملات کا، رسومات کا ہو یا سیاست کا، معاشی نظام کا ہو یا معاشرتی امور کا۔
امیر (سربراہ) کا انتخاب بھی اسلامی اصولوں کے عین مطابق کیا گیا ہے، کفار کے ساتھ امن معاہدہ بھی تمام اسلامی اصولوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، خطے کے ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بھی قرآن و حدیث سے اخذ کی گئی ہے۔ وہ تعلقات و اعمال جن کی قرآن و حدیث میں ممانعت آئی ہے ان پر پابندی ہے، وہ اعلام و امور جن کا قرآن و حدیث میں حکم دیا گیا ہے وہ رائج ہیں، حدود و قصاص نافذ ہیں۔ اور یہی اسلامی نظام کی وہ حقیقی تصویر ہے جسے امارت اسلامیہ افغانستان پیش کر رہی ہے۔