خوارج جنہوں نے پوری تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے؛ جب بھی وہ ظاہر ہوئے، امت کے بہترین لوگ ان کے ہاتھوں شہید ہوئے، جیسا کہ احادیث میں ہے ’’یقتلون خیر المسلمین‘‘۔
علامه ابن حجر رحمه الله فرماتے ہیں:
أَمَّا الْخَوَارِجُ فَهُمْ جَمْعُ خَارِجَةٍ أَيْ طَائِفَةٍ وَهُمْ قَوْمٌ مُبْتَدِعُونَ سُمُّوا بِذَلِكَ لِخُرُوجِهِمْ عَنِ الدِّينِ وَخُرُوجِهِمْ عَلَى خِيَارِ الْمُسْلِمِينَ.
ترجمه: خوارج خارجة کی جمع ہے، یہ ایک بدعتیوں کی جماعت ہے، انہیں خوارج اس لیے کہاجاتاہے کہ یہ لوگ دین(دین کے صحیح فہم) سے نکل جاتے ہیں اور امت کے بہترین افراد کے خلاف لڑتے ہیں۔
نوٹ: طواغیت کے خلاف جو مجاہدین مسلح جدوجہد اور جہاد کررہے ہیں، بعض لوگ ان مجاہدین کو خوارج کہتے ہیں؛ لہٰذا ابن حجر رحمہ اللہ کی یہ تعریف مجاہدین پرلاگو نہیں ہوتی، کیونکہ مجاہدین صالح مسلمانوں کے خلاف بغاوت کرتے ہیں اور نہ لڑتے ہیں بلکہ یہ حضرات کفار کے غلاموں، محافظوں اورکفری قوانین کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔
ایک اوربات یہ کہ مجاہدین دین سے نہیں نکلے؛ وہ تو دین کا نفاذ چاہتے ہیں، دین سے خوارج نکلے ہیں جو ایک بدیہی اور واضح سی بات ہے۔
"الخوارج عقیدة و تاریخ وحاضر” نامی کتاب کے ۲ صفحے پر مصنف خوارج کے حوالے سے لکھتے ہیں:
فقط ظهرت بوادرها في زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم، عندما طعن عبدالله ذو الخويصرة التميمي بقسمة رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال فيها -ولبئس ما قال-: هذه قِسمة ما أُريد بها وجه الله .
ترجمہ: ان کی ابتداء تو آپ علیہ السلام کے زمانے میں ہی ہوگئی تھی جب عبدالله ذو الخويصرة التميمی نے آپ علیہ السلام کی تقسیم پر اعتراض کرتے ہوئے کہاتھا(بہت برا کہاتھا): یہ تقسیم اللہ کی رضا کے لیے نہیں۔
وقال أيضاً، إعدل يا رسول الله، فقال الصادق الأمين: (ويلك، إن لم أعدل فمن يعدل؟)
ثمّ قال فيه: يخرج من ضئضئ هذا قوم تحقرون صلاتكم إلى صلاتهم وصيامكم إلى صيامهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية. أنظر كامل القصّة في البخاري ومسلم.
اور یہ بھی کہا: اے اللہ کے رسول! انصاف سے کام لیجیے، صادق وامینﷺ نے جواب میں فرمایا: تباہی ہو تیرے لیے، اگر میں بھی انصاف نہ کروں تو کون کرے گا؟
ثمّ قال فيه: يخرج من ضئضئ هذا قوم تحقرون صلاتكم إلى صلاتهم وصيامكم إلى صيامهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية. أنظر كامل القصّة في البخاري ومسلم.
آپ علیہ السلام نے اس کے بارے میں فرمایا: یہ ایسے لوگ ہیں کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں وروزوں کے مقابلے میں ہیچ خیال کروگے، دین سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر شکار کے جسم سے نکلتاہے۔ تفصیل کے لیے بخاری ومسلم دیکھیں۔
أمّا من حيث كونها فرقة لها تجمّع وعقائد وشوكة، فقد ظهر هذا بعد التحكيم الذي حدث بطلب منهم (وكانوا في جيش عليّ رضي الله عنه وأرضاه وطالبوه بالتحكيم) بين عليّ ومعاويةرضوان الله عليهم جميعاً، ثمّ قاتلهم عليّ رضي الله عنه حتّى كان قتله رحمه الله ورضي عنه على أيديهم الخبيثة.
یہ تو ایک فرد کی بات تھی، جہاں تک ان کے فرقے، عقائد، طاقت وقوت اورمنظم جماعت کی شکل اختیارکی ہے، تووہ حضرت علیؓ کے زمانے میں واقعہ تحکیم کے نتیجے میں وجود میں آئے، انہوں نے حضرت کو مجبور کیا کہ وہ حضرت معاویہؓ سے صلح کرنے کے لیے حکم مقررکریں، جس کے بعد ہی بغاوت کی بنا پر ان سے جنگ کی گئی، انہی خبیث لوگوں کے ہاتھوں آپ رضی اللہ عنہ شہید کیے گیے۔
لہذا خوارج کی اصطلاح یا نام کوئی نیا نام نہیں، بلکہ یہ پرانانام ہے؛ سب سے پہلے یہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ادا فرمائے تھے؛ اور فرمایاتھا: ’’الخوارج کلاب النار‘‘ یہ الفاظ تین بار ارشاد فرمائے کہ خوارج جہنم کے کتے ہیں۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا: ’’ھم شرارالخلق عنداللہ‘‘ کہ اللہ کے نزدیک خوارج تمام مخلوق میں سب سے زیادہ نقصان دہ اور برے لوگ ہیں، دوسری روایت میں آتاہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’أولئک لهم النار‘‘ ان خوارج کے لیے جہنم ہے۔
علامه شوكانی رحمه الله نے نیل الاوطار کی ساتویں جلد کے صفحہ۱۸۷ پر لکھتے ہیں:
بَابُ قِتَالِ الْخَوَارِجِ) هُمْ جَمْعُ خَارِجَةٍ: أَيْ طَائِفَةٍ، سُمُّوا بِذَلِكَ لِخُرُوجِهِمْ عَنْ الدِّينِ وَابْتِدَاعِهِمْ أَوْ خُرُوجِهِمْ عَنْ خِيَارِ الْمُسْلِمِينَ.
ترجمه: خوارج خارجة کی جمع ہے، انہیں خوارج اس لیے کہاجاتاہے کہ یہ لوگ دین کے صحیح مفہوم کو چھوڑکر بدعت کو اختیار کربیٹھے، يعنی اہل السنة والجماعت، سلف صالحین یعنی صحابه کرام، تابعین، تبع تابعین اور أئمه مجتهدین نے دین کو جس طرح سمجھا اور تشریح کی تھی؛ یہ لوگ اس تشریح وتفسیر کی مخالفت کرتے ہیں۔
اور ’’خروجهم عن خیار المسلمین‘‘ کہ صالح مسلمانوں کی صف سے نکل جائیں گے۔
فتح الباری میں ابن حجر رحمه الله فرماتےہیں:
وَكَانَ بن عُمَرَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ إِلَخْ.
ترجمه: ابن عمر رضی الله تعالی عنه انہیں(خوارج کو) تمام مخلوقات سے بدتر شمارکرتے؛ کیونکہ یہ لوگ کفار سے متعلق آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتےتھے۔
وَصَلَهُ الطَّبَرِيُّ فِي مُسْنَدِ عَلِيٍّ مِنْ تَهْذِيبِ الْآثَارِ مِنْ طَرِيقِ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ أَنَّهُ سَأَلَ نَافِعًا كَيْفَ كَانَ رَأْيُ بن عُمَرَ فِي الْحَرُورِيَّةِ قَالَ كَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتِ الْكُفَّارِ فَجَعَلُوهَا فِي الْمُؤْمِنِينَ قُلْتُ وَسَنَدُهُ صَحِيحٌ وَقَدْ ثَبَتَ فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ الْمَرْفُوعِ عِنْدَ مُسْلِمٍ مِنْ حَدِيثِ أَبِي ذَرٍّ فِي وَصْفِ الْخَوَارِجِ هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ.
(خوارج، انسانوں اور حیوانات میں سب سے بدتر ہیں)۔
وَعِنْدَ أَحْمَدَ بِسَنَدٍ جَيِّدٍ عَنْ أَنَسٍ مَرْفُوعًا مِثْلَهُ وَعِنْدَ الْبَزَّارِ مِنْ طَرِيقِ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ ذِكْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخَوَارِجَ فَقَالَ هُمْ شِرَارُ أُمَّتِي يَقْتُلُهُمْ خِيَارُ أُمَّتِي.
(خوارج میری امت کا شریر طبقه ہے اور انہیں میری امت کا صالح ترین طبقہ قتل کرے گا)۔
وَسَنَدُهُ حَسَنٌ وَعِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مَرْفُوعًا هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ يَقْتُلُهُمْ خَيْرُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ وَفِي حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ عِنْدَ أَحْمَدَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ وَفِي رِوَايَةِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيٍّ عِنْدَ مُسْلِمٍ مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيْهِ.
(الله کی مخلوقات میں اللہ کے ہاں سب سے مبغوض لوگ ہیں)۔
وَفِي حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ يَعْنِي عَنْ أَبِيهِ عِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ شَرُّ قَتْلَى أَظَلَّتْهُمُ السَّمَاءُ وَأَقَلَّتْهُمُ الْأَرْضُ.
(زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے سب سے بدترین مقتولین یہ(خوارج)ہیں)۔
وَفِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ نَحوه وَعند أَحْمد وبن أَبِي شَيْبَةَ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَرْزَةَ مَرْفُوعًا فِي ذِكْرِ الْخَوَارِجِ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ يَقُولُهَا ثَلَاثًا وَعند بْنُ أَبِي شَيْبَةَ مِنْ طَرِيقِ عُمَيْرِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ.
خوارج تمام مخلوق میں بدترین ہیں، کیونکہ یہ لوگ ارتداد اور تکفیر کے بہانے مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں، جبکہ مسلمان کی تکفیر اور اس کا قتل جرم عظیم ہے۔
نبی علیه السلام نے فرمایا:
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا قال الرجل لأخيه يا كافر فقد باء بها أحدهما فإن كان كما قال وإلا رجعت عليه. (متفق علیه)
ترجمه: جب کوئی اپنے مسلمان بھائی کو کہے کہ: اے کافر! تو یہ حکم ان دونوں میں سے کسی ایک پر لگے گا؛ اگر وہ شخص حقیقت میں کافر ہوگا، تو بات ٹھیک ہےاوراگر کافر نہ ہوگا تو یہ کہنے والا خود کافر ہوگا، یعنی یہ بات کہنے والے پر لوٹ جائے گی۔
اسی طرح مسلمان کا خون محترم اور حرام ہے، اس حوالے سے کافی احتیاط کی ضرورت ہے، حدیث میں آیا ہے کہ نبی علیه السلام نے فرمایا:
أول مایٌقضَی بین الناس یوم القیامة في الدماء.
ترجمه: قیامت کے دن سب سے پہلے ناحق خون کے بارے میں فیصلے کیے جائیں گے۔
اسی طرح نبی کریم صلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں:
اِنّ من ورطات الامور الّتي لَا مخرج لمن أوقع نفسه فیها سفک الدم الحرام بغیر حلّه.
ترجمه: انسان کے لیے ہلاک کرنے والے امور میں سے، جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، یہ ہے کہ وہ کسی کا ناحق خون بہائے۔
نبی کریم صلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں:
لوأَنَّ أَنّ أهل السماء و أهل الأرض اشترکوا في دمِ مؤمنٍ لأَکَبّهم الله في النار.
ترجمه: اگر تمام آسمان اور زمین والی مخلوقات کسی ایک مؤمن کے قتل میں شریک ہوجائیں، اللہ تعالی ضرور بالضرور ان تمام مخلوقات کو جہنم میں منہ کے بل گرائے گا۔
"أفمن زيّن له سوء عمله فرأه حسنا” اس آیت کی تفسیر میں علامه ابو حفص الحنبلی رحمه الله نے لکھاہے: فقال قتادة: منهم الخوارج الذین یستحلون دماء المسلمین و أموالهم.
ترجمه: ان لوگوں میں خوارج بھی داخل ہیں، جو مسلمانوں کی جانوں اور اموال کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔