مرزا غلام احمد قادیانی جس نے نبوت کا دعویٰ کیا، ختم نبوت کے اجماعی عقیدے کا انکار کیا، اپنے آپ کو اور اپنے پیروکاروں کو اسلامی امت کا حصہ سمجھا اور اسلامی امت کے اسٹیج اور منہج سے اپنے کفری عقائد نشر کیے اور اپنے تمام من گھڑت نظریات کو اسلام کے نام پر استعمال کیا؛ اس کے خلاف جمہوری طریقے سے احتجاجی تحریک شروع کی گئی، ختم نبوت کے نام پر مسلمانوں نے تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے کم از کم یہ فیصلہ کیا کہ قادیانی ایک غیر مسلم گروہ ہے، انہیں اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حق نہیں، انہیں اپنے عبادت گاہ کو مسجد کہنے کا حق نہیں اور انہیں اسلام کے نام پر کسی کو دعوت دینے کا حق نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ بھی کوئی شرعی فیصلہ نہیں تھا، کیونکہ یہ تو اصل میں مرتدین تھے، اگر حکومتی نظام اسلامی ہوتا اور جمہوری نہ ہوتا تو اسلامی نظام کا شرعی فریضہ یہ تھا کہ وہ ان سے توبہ کراتے اور اگر وہ توبہ نہ کرتے تو ان کی سزا قتل ہوتی۔
بہرحال یہ بھی کسی حد تک کامیابی تھی، قادیانی اب اسلام کے نام پر کھلی تبلیغات نہیں کرسکتے، نہ اسلام کے نام پر اپنے مدارس چلا سکتے ہیں، نہ اسلام اور مسجد کے نام پر اپنی عبادت گاہیں بنا سکتے ہیں اور نہ ہی اسلام، شریعت، قرآن اور سنت کے نام پر اپنے اجتماعات اور جلسے کر سکتے ہیں۔
اس کے برعکس روافض اسلام کے نام پر یہ سب کچھ کرسکتے ہیں، یا جیسے ترکی کے اخوانی جمہوری حکومت اور اس کے صدر رجب طیب اردگان کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے سیکولر ترکی میں کچھ اصلاحات ہوئیں، ان میں سے ایک اصلاح یہ تھی کہ چند سال قبل سلطان محمد فاتح رحمہ اللہ کے دور کی تاریخی جامع مسجد (آیا صوفیا) جسے معاصر سیکولر ترکی کے بے دین رہنما مصطفی کمال اتاترک نے میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا، دوبارہ مسجد میں تبدیل ہو گئی۔
لہذا ان سہولتوں کے پیش نظر اگر کوئی شخص شاہی نظام، فوجی نظام، یا دیگر کفری ادیان جیسے ہندو ازم، بدھ ازم وغیرہ، یا کمیونسٹ نظاموں کے مقابلے میں جمہوریت کو پسند کرے اور اس غیر شرعی نظام کے ساتھ کسی قسم کی وفاداری کا اعلان کرے، ہمدردی یا معاونت ظاہر کرے اور اس کی حمایت و مطالبہ کرے، تو یہ کفر نہیں ہے؛ لیکن اگر یہ سب کچھ اسلامی نظام کے مقابلے میں ہو تو پھر یہ صریح اور واضح کفر ہے۔
اس کی ایک اور مثال نجاشی ہے جس نے اب تک اسلام قبول نہیں کیا تھا، اس کا نظام بھی کفری تھا مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعریف کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہاں ہجرت کی اجازت دی، کیونکہ اس کے نظام میں انصاف تھا، ظلم نہیں تھا، جیسا کہ ’’الأیام النضرة فی السیرة العطرة‘‘ کی پانچویں جلد صفحہ ۶ پر ابو ہاشم صالح بن عواد بن صالح المغامسی نے لکھا ہے:
’’ ثم جاء الإذن بالهجرة إلى الحبشة، ولم يكن هذا من السماء، وإنما كان اجتهاداً منه ﷺ، وأخبر أن ذلك الملك الذي يوجد في الحبشة، وهو النجاشي ملك لا يظلم الناس عنده، رغم أن النجاشي لم يكن مسلماً، ولا يؤمن بالله ولا باليوم الآخرة، ولا يعرف عنده دين الإسلام، لكن المؤمنين مستأمنون عنده. فأذن النبي ﷺ لأصحابه بالهجرة إلى الحبشة، وهذا هو التعريف الحقيقي لما يسمى باللجوء السياسي اليوم‘‘.
اسی طرح ’’فی سبیل العقیدۃ الاسلامیۃ‘‘ کی پہلی جلد صفحہ ۸۶ پر عبد اللطيف بن على بن أحمد بن محمد السلطاني القنطري الجزائري المتوفى: 1404هـ فرماتے ہیں:
’’وعندما اشتد أذى مشركي قريش على المسلمين شرعوا في الهجرة إلى خارج نفوذ المشركين، فبعض المسلمين هاجروا إلى الحبشة المسيحية، إذ وجدوا في حاكمها (النجاشي) حسن الاستقبال والجوار والرعاية والأمان وسعة الصدر، وهذا لم يجدوه بين أهلهم وفي بلدهم مكة، إذ لم يضق صدره من المسلمين، وهم في بلده وإن كانوا مخالفين له في عقيدته ودينه ذلك؛ لأنه مسيحي صميم غير متعصب، ولم يكن في قلبه أي حقد على الإسلام وعقيدته، وقد أثنى الله في القرآن عليهم – الحبشة – كما جاء في قوله تعالى: ﴿لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَهُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا ج وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰىؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ ٨٢﴾ (سورة المائدة: 82)
سیرت ابن ہشام کی جلد اول صفحہ۲۹۱ پر امّ سلمة رضی اللہ عنہا کی روایت سے لکھا ہے کہ جب ہم حبشہ میں مہاجر تھے تو ہم نجاشی کی فتح اور غلبے پر خوش ہوتے تھے، کیونکہ وہ ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتا تھا۔ ایک بار اُس کے ساتھ ایک دوسرے حبشی شخص کے اقتدار پر جنگ ہوئی، امّ سلمة رضی اللہ عنہا قسم کھاتی ہیں کہ ہم پر اس سے بڑا کوئی غم وہاں نہیں آیا، کیونکہ ہمارا غم یہ تھا کہ کہیں کوئی اور اقتدار میں نہ آ جائے اور وہ ہمارے حقوق کا خیال نہ کرے۔ اس لیے ہم نجاشی کی فتح کے لیے دعا کرتے رہتے تھے۔ جنگ کا میدان نیل کے کنارے تک پھیلا ہوا تھا، پھر ہم نے آپس میں کہا کہ کون جنگ کے میدان میں جائے گا اور ہمیں صحیح خبر لائے گا؟
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کم عمر تھے، انہوں نے کہا کہ میں جاؤں گا، تو میدان تک پہنچنے کے لیے راستے میں دریا تھا، لہذا ان کے لیے ٹیوب جیسی چیز میں ہوا بھری گئی، جس پر سوار ہوکر وہ جنگ کے میدان میں پہنچے اور کچھ وقت بعد دوڑتے ہوئے اور اپنے کپڑے چاک کرتے ہوئے آئے اور ہمیں کہا کہ خوشخبری سنو! نجاشی نے جنگ جیت لی اور اس کے دشمن ہلاک ہو گئے۔ امّ سلمة رضی اللہ عنہ قسم کھاتی ہیں کہ ہم کبھی اتنے خوش نہیں ہوئے تھے۔
اب اگر ہم دیکھیں تو نجاشی کا نظام کفری تھا، وہ اسلامی نظام نافذ نہیں کرسکتاتھا لیکن مہاجرین نے اس حکومت کو پسند کیا کیونکہ اس نے انہیں پناہ دی تھی اور ان کا خیال رکھا تھا۔ اس لیے وہ دوسرے کافر حکمران کے مقابلے میں نجاشی کے لیے دعا کرتے تھے، حالانکہ نجاشی کا نظام بھی کفر کا تھا، جیسے کہ امّ سلمة رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:
المهاجرون يفرحون بانتصار النجاشي، قالت: فوالله! إنا لعلى ذلك إذا نَزَلَ بِهِ رَجُلٌ مِنَ الْحَبَشَةِ يُنَازِعُهُ فِي مُلْكِهِ. قَالَتْ: فَوَاللهِ! مَا علمتُنا حَزِنَّا حُزْنًا قَطُّ كَانَ أشدَّ عَلَيْنَا مِنْ حُزْنٍ حَزِنَّاهُ عِنْدَ ذَلِكَ؛ تَخَوُّفًا أَنْ يَظْهَرَ ذَلِكَ الرَّجُلُ عَلَى النَّجَاشِيِّ، فَيَأْتِي رَجُلٌ لَا يَعْرِفُ مِنْ حقِّنا مَا كَانَ النجاشيُّ يَعْرِفُ مِنْهُ. قَالَتْ: وَسَارَ إلَيْهِ النَّجَاشِيُّ، وَبَيْنَهُمَا عَرضُ النِّيلِ، قَالَتْ: فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ: مَنْ رَجُلٌ يَخْرَجُ حَتَّى يحضرَ وقيعةَ الْقَوْمِ ثُمَّ يَأْتِينَا بِالْخَبَرِ؟ قَالَتْ: فَقَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ: أَنَا. قَالُوا: فَأَنْتَ. وَكَانَ مِنْ أَحْدَثِ الْقَوْمِ سِنًّا. قَالَتْ: فَنَفَخُوا لَهُ قِرْبَةً، فَجَعَلَهَا فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ سَبَحَ عَلَيْهَا حَتَّى خَرَجَ إلَى نَاحِيَةِ النِّيلِ الَّتِي بِهَا ملتقَى الْقَوْمِ، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى حَضَرَهُمْ. قَالَتْ: فَدَعَوْنَا اللهَ تَعَالَى لِلنَّجَاشِيِّ بِالظُّهُورِ عَلَى عدوِّه والتمكين له في لَادِهِ. قَالَتْ: فَوَاللهِ إنَّا لعلَى ذَلِكَ مُتَوَقِّعُونَ لِمَا هُوَ كَائِنٌ، إذْ طَلَعَ الزبيرُ وَهُوَ يسعَى، فَلَمَعَ بِثَوْبِهِ وَهُوَ يَقُولُ: أَلَا أَبْشِرُوا، فَقَدْ ظَفِرَ النجاشيُّ، وَأَهْلَكَ اللهُ عدوَّه، ومكَّن لَهُ فِي بِلَادِهِ. قَالَتْ: فَوَاللهِ مَا عَلِمْتُنَا فَرِحنا فَرْحَةً قَطُّ مثلَها.
آئیں واپس اصل موضوع کی طرف آتے ہیں؛ اصل موضوع ہم نے یہ شروع کیا تھا کہ کافروں کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے میں تعاون کرنا مطلقاً کفر کا عمل ہے یا اس میں تفصیل ہے؟
تو اس تحریر کی گذشتہ قسطوں میں ہم نے یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی کہ اہل السنة والجماعة کے سلف صالحین، ائمہ اربعہ، متقدمین اور جمہور متأخرین کا مؤقف یہ ہے کہ اگر یہ مجرمانہ عمل عقیدے کے فساد اور خباثت کی وجہ سے ہو تو یہ ارتداد ہے اور اگر یہ کسی شخصی یا دنیوی مفاد کی وجہ سے ہو تو یہ کبیرہ گناہ ہے، لیکن کفر نہیں ہے۔ اس پر ہم نے سلف صالحین، بعض متقدمین، اور جلیل القدر مفسرین کے واضح نصوص اور عبارتیں پیش کی ہیں۔