علامه ابو العباس احمد بن محمد بن المهدی رحمه الله:
ابو العباس، احمد بن محمد بن المهدي رحمه الله اپنی تفسیر ’’البحر المدید‘‘ کی دوسری جلد صفحه ۴۹ پر فرماتے ہیں:
﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾
أي: من والاهم منكم فإنه من جملتهم.
قال البيضاوي: وهذا تشديد في وجوب مجانبتهم، كما قال صلّى الله عليه وسلّم: «المؤمنُ والمشركُ لا تَتَراءى نَارهَمَا» أو لأن الموالين لهم كانوا منافقين. هـ.
وقال ابن عطية: من تولاهم بمعتقده ودينه فهو منهم في الكفر واستحقاق النقمة والخلود في النار، ومن تولاهم بأفعاله من العَضد ونحوه، دون معتقد ولا إخلال بإيمان، فهو منهم في المقت والمذمة الواقعة عليهم وعليه.
علامه ابن عاشوررحمه الله:
علامه ابن عاشور رحمه الله اپنی تفسیر’’التحریر والتنویر‘‘ کی جلد ششم صفحه ۲۳۰ پر اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوْلِيَآءَ م بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍؕ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ٥١﴾؛
فرمایا:
واضح طور پر آیت کا مفہوم یہ ظاہر کرتا ہے کہ کافروں کے ساتھ دوستی ان کے دین میں داخل ہونے کے مترادف ہے، کیونکہ اس کا مفہوم جزئیت کے سوا کچھ اور نہیں بنتا۔ لیکن جب کسی مسلمان کا عقیدہ صحیح ہو، یعنی وہ ایمان رکھتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہو، وہ منافق نہ ہو تو وہ شخص بلا شبہ مؤمن ہے۔ لہٰذا یہ آیت تاویل کی محتاج ہے اور اسی وجہ سے مفسرین نے اس کی دو طرح سے تاویل کی ہے؛ یا تو ولایت سے مراد مکمل ولایت ہے یعنی کافروں کے دین کو پسند کرنا اور دین اسلام پر اعتراضات کرنا یا پھر یہ ایک بلیغ تشبیہ ہے یعنی وہ شخص کافروں کی جماعت میں ہے اور عذاب میں مبتلا ہے۔
اور اس کے بعد فرمایا:
اس بات پر علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے کہ جب تک کسی مسلمان نے کافروں کے دین کو پسند نہیں کیا اور اس نے کافروں کے ساتھ اس بنیاد پر مدد نہیں کی، وہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا؛ البتہ یہ ایک بڑی گمراہی اور گناہ ہے۔
پھر موالات (یعنی کافروں کے ساتھ دوستی) کی ایک خطرناک قسم کا ذکر کیا ہے، جو کہ اندلس کے بعض کمانڈروں اور جنگجوؤں نے کی تھی، جو مسلمانوں کے خلاف نصاریٰ کے ساتھ مل گئے تھے۔ ان کے حوالے سے اندلس کے علماء سے بھی فتویٰ لیا گیا تھا، لیکن انہوں نے کفر کا فتویٰ نہیں دیا بلکہ کہا کہ یہ ایک بڑا گناہ ہے اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں مدد دینا ہے۔
ابن عاشور رحمه الله فرماتے ہیں کہ فقہاء نے اس استفتاء کے جواب میں اس آیت سے جو استدلال کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو کافر قرار نہیں دیا بلکہ آیت کو تأویل پر محمول کیا۔ اسی طرح ابن عاشور رحمه الله مزید فرماتے ہیں کہ یہ موالات، جو اندلس کے کمانڈروں اور جنگجوؤں نے کی تھی اور جن کے بارے میں فقہاء کرام نے جواب دیا تھا، یہ کفر کے بعد موالات کی اقسام میں سب سے بڑی اور بری قسم ہے۔
موصوف فرماتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ (مَنْ) شَرْطِيَّةٌ تَقْتَضِي أَنَّ كُلَّ مَنْ يَتَوَلَّاهُمْ يَصِيرُ وَاحِدًا مِنْهُمْ جَعَلَ وَلَايَتَهُمْ مُوجِبَةَ كَوْنِ الْمُتَوَلِّي مِنْهُمْ، وَهَذَا بِظَاهِرِهِ يَقْتَضِي أَنَّ وَلَايَتَهُمْ دُخُولٌ فِي مِلَّتِهِمْ؛ لِأَنَّ مَعْنَى الْبَعْضِيَّةِ هُنَا لَا يَسْتَقِيمُ إِلَّا بِالْكَوْنِ فِي دِينِهِمْ. وَلَمَّا كَانَ الْمُؤْمِنُ إِذَا اعْتَقَدَ عَقِيدَةَ الْإِيمَانِ وَاتَّبَعَ الرَّسُولَ وَلَمْ يُنَافِقْ كَانَ مُسْلِمًا لَا مَحَالَةَ، كَانَتِ الْآيَةُ بِحَاجَةٍ إِلَى التَّأْوِيلِ، وَقَدْ تَأَوَّلَهَا الْمُفَسِّرُونَ بِأَحَدِ تَأْوِيلَيْنِ: إِمَّا بِحَمْلِ الْوَلَايَةِ فِي قَوْلِهِ: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ﴾ عَلَى الْوَلَايَةِ الْكَامِلَةِ الّتي هِيَ الرّضى بِدِينِهِمْ وَالطَّعْنُ فِي دِينِ الْإِسْلَامِ، وَلِذَلِكَ قَالَ ابْنُ عَطِيَّةَ: وَمَنْ تَوَلَّاهُمْ بِمُعْتَقَدِهِ وَدِينِهِ فَهُوَ مِنْهُمْ فِي الْكُفْرِ وَالْخُلُودِ فِي النَّارِ.
وَإِمَّا بِتَأْوِيلِ قَوْلِهِ: ﴿فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ عَلَى التَّشْبِيهِ الْبَلِيغِ، أَيْ فَهُوَ كَوَاحِدٍ مِنْهُمْ فِي اسْتِحْقَاقِ الْعَذَابِ. قَالَ ابْنُ عَطِيَّةَ: مَنْ تَوَلَّاهُمْ بِأَفْعَالِهِ مِنَ الْعَضْدِ وَنَحْوِهِ دُونَ مُعْتَقَدِهِمْ وَلَا إِخْلَالٍ بِالْإِيمَانِ فَهُوَ مِنْهُمْ فِي الْمَقْتِ وَالْمَذَمَّةِ الْوَاقِعَةِ عَلَيْهِمْ اهـ. وَهَذَا الْإِجْمَالُ فِي قَوْلِهِ: ﴿فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ مُبَالَغَةٌ فِي التَّحْذِيرِ مِنْ مُوَالَاتِهِمْ فِي وَقْتِ نُزُولِ الْآيَةِ، فَاللَّهُ لَمْ يَرْضَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ بِأَنْ يَتَوَلَّوُا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى؛ لِأَنَّ ذَلِكَ يُلْبِسُهُمْ بِالْمُنَافِقِينَ، وَقَدْ كَانَ أَمْرُ الْمُسلمين يَوْمئِذٍ في حَيْرَةٍ إِذْ كَانَ حَوْلَهُمُ الْمُنَافِقُونَ وَضُعَفَاءُ الْمُسْلِمِينَ وَالْيَهُودُ وَالْمُشْرِكُونَ، فَكَانَ مِنَ الْمُتَعَيَّنِ لِحِفْظِ الْجَامِعَةِ التَّجَرُّدُ عَنْ كُلِّ مَا تَتَطَرَّقُ مِنْهُ الرِّيبَةُ إِلَيْهِمْ.
وَقَدِ اتَّفَقَ عُلَمَاءُ السُّنَّةِ عَلَى أَنَّ مَا دُونُ الرِّضَا بِالْكُفْرِ وَمُمَالَأَتِهِمْ عَلَيْهِ مِنَ الْوَلَايَةِ لَا يُوجِبُ الْخُرُوجَ مِنَ الرِّبْقَةِ الْإِسْلَامِيَّةِ، وَلَكِنَّهُ ضَلَالٌ عَظِيمٌ، وَهُوَ مَرَاتِبُ فِي الْقُوَّةِ بِحَسَبِ قُوَّةِ الْمُوَالَاةِ وَبِاخْتِلَافِ أَحْوَالِ الْمُسْلِمِينَ.
لہذا اس بات پر اہل سنت والجماعة کے تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایسے کسی بھی معاملے میں جس میں کفار سے تعلق رکھتے ہوئے کفر پر خوشی اور رضا نہ ہو اور اس کی بنیاد پر کافروں کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے، ایسے تعلقات یا موالات انسان کو ایمان سے خارج نہیں کرتے۔
رضا کی تحقیق:
رضا کا معنی اور مفہوم علماء نے اس طرح ذکر کیا ہے:
"الرضا لغة قبول الشيء بسرور وغبطة والاطمنان به قلبًا دون ألم أو ضجر أو مشقة. (موسوعة المفاھیم الإسلامیة العامة، ص: ۳۱۵)
رضا لغت میں ایسے امر کو کہتے ہیں کہ انسان کسی چیز کو ایسی خوشی اور محبت کے ساتھ قبول کرے کہ اس میں کسی قسم کا درد، تھکاوٹ یا مشقت نہ ہو، اور اس پر دل مطمئن ہو۔
مقصد: بغیر کسی درد، تھکاوٹ اور مشقت کے دلی سکون کے ساتھ کفری دین کو خوشی سے قبول کرنا، یہ لغت کی تعریف کے مطابق "رضا بالکفر” ہے۔
قاموس میں ہے:
الرضاء کمال إرادۃ وجود شيء. (کلیات أبي البقاء الحسني ص: ۱۹۴، ج: ۴)
رضا مکمل ارادے کے ساتھ کسی چیز کے وجود کو قبول کرنے کو کہتے ہیں۔
یعنی جب انسان کسی چیز کو نہ صرف دل سے، بلکہ اپنے پورے ارادے اور خواہش کے ساتھ قبول کرتا ہے، تو اسے "رضا” کہا جاتا ہے۔
مقصد: جب کوئی شخص اپنے پورے ارادے کے ساتھ کافری دین کو اختیار کرے، تو یہ "رضا بالکفر” ہے۔ یعنی وہ شخص کفری دین کو دل سے اور اپنی مرضی سے قبول کرتا ہے۔
نظر بعین الرضا قِبل الشيء عن طیب نفس. (معجم اللغة العربیة المعاصرہ، ص: ۹۰۴، ج:۲)
مطلب: اگر کوئی اپنی دلی خوشی سے دین کفر کو پسند کرے تو اس تعریف کی بنیاد پر یہ رضابالکفر ہے:
"رضي به وعنه وعلیه اختارہ وقبله” يعنې رضا په مانا د خوښولو او قبلولو راحٔي. (المعجم الوسیط بالراء ج: ۱، ص: ۳۵۱)
لہذا کفر پر راضی ہونا اور اسے پسند کرنا، اس تعریف کی رو سے رضابالکفرہے۔
الرضاء نھایة القبول. (رسالة رد الروافض، ص:۱۰)
رضا کا مطلب مکمل طور پر کسی چیز کو قبول کرنا ہے، یعنی ظاہراً اور باطناً پوری طرح سے اسے تسلیم کرنا، لہذا اگر کوئی شخص کفر کو اس طرح قبول کرے، یعنی پوری دلجمعی اور ارادے سے کفر کو اختیار کرے، تو یہ "رضا بالکفر” کہلائے گا۔
الرضا عند الحنفیة ھو امتلاء الاختیار وبلوغه نهاية کا مطلب ہے کہ رضا کا معنی یہ ہے کہ اختیار کی تکمیل اور اس کی انتہا کو پہنچنا۔
خلاصہ یہ ہے کہ رضا اس بات کو کہتے ہیں جب کسی چیز کو مکمل طور پر پسند کیا جائے اور اس کی محبت یا خواہش اپنی انتہا تک پہنچے، اگر کوئی شخص کفری دین کو اس حد تک (ظاہرًا اور باطنًا) پسند کرے، تو اس تعریف کے مطابق یہ "رضا بالکفر” ہے۔
اہلِ لغت دوسرا معنی اس طرح بیان کرتے ہیں:
"إیثار الشيء واستحسانه”
کسی چیز کو پسند کرنا اور اسے صحیح سمجھنا (بحواله المفصل في شرح آیة الاکراہ في الدین، ص: ۱۳۹)
یعنی کفر کو ترجیح دینا اوربہتر سمجھنا، اس تعریف کی بنیاد پر رضا بالکفر ہے۔
علامه ابن عاشور رحمه الله آگے فرماتے ہیں:
وَأَعْظَمُ هَذِهِ الْمَرَاتِبِ الْقَضِيَّةُ الَّتِي حَدَثَتْ فِي بَعْضِ الْمُسْلِمِينَ مِنْ أَهْلِ غَرْنَاطَةَ الَّتِي سُئِلَ عَنْهَا فُقَهَاءُ غَرْنَاطَةَ: مُحَمَّدٌ الْمَوَّاقُ، وَمُحَمّد بن الأرزق، وعلي بن دَاوُود، وَمُحَمَّدُ الْجَعْدَالَةُ، وَمُحَمَّدٌ الْفَخَّارُ، وعلى الْقَلْصَادِيُّ، وَأَبُو حَامِدِ بْنُ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَرْحُونَةَ، وَمُحَمَّدٌ الْمُشَذَّالِيُّ، وَعَبْدُ اللَّهِ الزَّلِيجِيُّ، وَمُحَمَّدٌ الْحَذَّامُ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَلِيلِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فَتْحٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْبَرِّ، وَأَحْمَدُ الْبَقَنِيُّ، عَنْ عِصَابَةٍ مِنْ قُوَّادِ الأندلس وفرسانهم لجأوا إِلَى صَاحِبِ قَشْتَالَةَ (بِلَادِ النَّصَارَى) بَعْدَ كَائِنَةِ (اللِّسَانَةِ) – كَذَا- وَاسْتَنْصَرُوا بِهِ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَاعْتَصَمُوا بِحَبْلِ جِوَارِهِ وَسَكَنُوا أَرْضَ النَّصَارَى، فَهَلْ يَحِلُّ لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مُسَاعَدَتُهُمْ وَلِأَهْلِ مَدِينَةٍ أَوْ حصن أَن يأووهم.
فَأَجَابُوا بِأَنَّ رُكُونَهُمْ إِلَى الْكُفَّارِ وَاسْتِنْصَارَهُمْ بِهِمْ قَدْ دَخَلُوا بِهِ فِي وَعِيدِ قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ فَمَنْ أَعَانَهُمْ فَهُوَ مُعِينٌ عَلَى مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، هَذَا مَا دَامُوا مُصِرِّينَ عَلَى فِعْلِهِمْ، فَإِنْ تَابُوا وَرَجَعُوا عَمَّا هُمْ عَلَيْهِ مِنَ الشِّقَاقِ وَالْخِلَافِ فَالْوَاجِبُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ قَبُولُهُمْ.
فَاسْتِدْلَالُهُمْ فِي جَوَابِهِمْ بِهَذِهِ الْآيَةِ يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُمْ تَأَوَّلُوهَا عَلَى مَعْنَى أَنَّهُ مِنْهُمْ فِي اسْتِحْقَاقِ الْمَقْتِ وَالْمَذَمَّةِ، وَهَذَا الَّذِي فَعَلُوهُ وَأَجَابَ عَنْهُ الْفُقَهَاءُ هُوَ أَعْظَمُ أَنْوَاعِ الْمُوَالَاةِ بَعْدَ مُوَالَاةِ الْكُفْرِ.
اس آیت: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ کے بعد آیت نمبر۵۴ ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ﴾ کی تفسیر میں علامه ابن عاشور رحمه الله پھر وضاحت کرتے ہیں کہ ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ سے مراد ارتداد نہیں، بلکہ یہ ایک طرح کی دھمکی اور ڈراوا یا تشدید ہے، اسی لیے ارتداد کے حوالے سے آگے صریح آیت ذکر کی ہے، یہ اس بات کی طرف اشاره ہے کہ جو شخص یہود ونصاری سے دوستی رکھتاہے تو یہ دوستی ارتداد کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے، جیساکہ فرماتے ہیں:
فَجُمْلَةُ ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ﴾ إِلَخْ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَ مَا قَبْلَهَا وَبَيْنَ جُمْلَةِ ﴿اِنَّما وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ﴾ [الْمَائِدَة: 55]، دَعَتْ لِاعْتِرَاضِهَا مُنَاسَبَةُ الْإِنْذَارِ فِي قَوْلِهِ: ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ [الْمَائِدَة: 51]. فَتَعْقِيبُهَا بِهَذَا الِاعْتِرَاضِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ اتِّخَاذَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ذَرِيعَةٌ لِلِارْتِدَادِ؛ لِأَنَّ اسْتِمْرَارَ فَرِيقٍ عَلَى مُوَالَاةِ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى مِنَ الْمُنَافِقِينَ وَضُعَفَاءِ الْإِيمَانِ يُخْشَى مِنْهُ أَنْ يَنْسَلَّ عَنِ الْإِيمَانِ فَرِيقٌ. وَأَنْبَأَ الْمُتَرَدِّدِينَ ضُعَفَاءَ الْإِيمَانِ بِأَنَّ الْإِسْلَامَ غَنِيٌّ عَنْهُمْ إِنْ عَزَمُوا عَلَى الِارْتِدَادِ إِلَى الْكُفْرِ.
ترجمہ: یہ جملہ معترضہ ہے جو کہ اپنے ماقبل جملے ﴿اِنَّما وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ﴾ اور اس کے بعد آنے والے جملے کے درمیان ہے۔ اس معترضہ جملے کو انذار(ڈرانے) کے مناسب مقام پر لایا گیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس انذار کے بعد یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہود و نصاریٰ سے دوستی ایک ایسا ذریعہ ہے جو مرتد ہونے کا سبب بن سکتی ہے؛ کیونکہ منافقین اور کمزور ایمان والے افراد کا یک طرفہ طور پر یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی جاری رکھنا اس بات کا خطرہ پیدا کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر ایمان سے نکل جائیں۔ اس لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کمزور ایمان والوں اور مترددین کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے اسلام سے مرتد ہونے کا عزم کرلیا تو دینِ اسلام ان سے بے پرواہ ہے اور دینِ اسلام میں ایسے لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔