حضرت سعد بن عبادة رضی اللہ عنہ کی مظاہرت:
حضرت سعد بن عبادة رضی اللہ عنہ کی مظاہرت کے بارے میں صحیحین میں تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جب (نعوذ باللہ من ذلک) بدنامی کا الزام لگا اور اس الزام میں اصل کردار رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کا تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی تشریف لائے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا: اس شخص یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول کا کام کون تمام کرے گا؟ کیونکہ اس نے مجھے بہت زیادہ تکلیف دی ہے، حتیٰ کہ اس نے میری بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بدکاری کا الزام لگایا۔ اور اللہ کی قسم! میری بیوی یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق خیر کا ہی یقین رکھتاہوں اور جس شخص پر وہ الزام لگا رہا ہے اس سے متعلق بھی میرا یقین ہے کہ وہ اس الزام سے بری اور اہل خیر میں سے ہے۔
قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حق گوئی میں کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے، وہی شخصیت جن کی وفات پر رحمٰن کا عرش بھی ہلنے لگاتھا، وہی جنہوں نے بنی قریظہ کے بارے میں تاریخی فیصلہ فرمایا تھا، جس کی تائید نبی علیہ السلام نے ان الفاظ سے کی تھی:
’’لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ مِنْ فَوْقِ سَبْعَةِ أَرْقِعَةٍ‘‘۔
انہی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ہم اس کا کام تمام کردیں گے، اگر وہ ہمارے قبیلے سے ہوتا تو اس کا سر قلم کردیتے لیکن وہ خزرج کے قبیلے سے ہے(مطلب یہ تھا کہ اسی کے قبیلے والے قتل کریں) اور اگر آپ ہمیں حکم دیتے ہیں تو ہم ہی قتل کرڈالیں گے۔
اس بات پر قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے اور عبداللہ بن ابی کی تائید کرنے لگے اور سعد بن معاذ سے کہا: اللہ کی قسم! تم اسے قتل نہیں کرسکتے نہ تمہاری یہ حیثیت ہے کہ اسے قتل کرو، اس دوران اسید بن حضیر کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو، اللہ کی قسم! ہم اسے ضرور قتل کریں گے، تم تو منافق ہو کہ منافقوں کا دفاع کرتے ہو۔
وَكَذَلِكَ فِي الصَّحِيحَيْنِ [وَغَيْرِهِمَا] فِي حَدِيثِ الْإِفْكِ لَمَّا قَامَ النَّبِيُّ ﷺ خَطِيبًا عَلَى الْمِنْبَرِ يَعْتَذِرُ مِنْ رَأْسِ الْمُنَافِقِينَ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَيٍّ فَقَالَ: ’’مَنْ يَعْذُرُنِي مِنْ رَجُلٍ [قَدْ] بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِي. وَاللهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا‘‘.
فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ سَيِّدُ الْأَوْسِ، وَهُوَ الَّذِي اهْتَزَّ لِمَوْتِهِ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَهُوَ الَّذِي كَانَ لَا تَأْخُذُهُ فِي اللَّهِ لَوْمَةُ لَائِمٍ، بَلْ حَكَمَ فِي حُلَفَائِهِ مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ بِأَنْ يُقْتَلَ مُقَاتِلُهُمْ وَتُسْبَى ذَرَارِيهِمْ وَتُغْنَمُ أَمْوَالُهُمْ، حَتَّى قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ’’لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ مِنْ فَوْقِ سَبْعَةِ أَرْقِعَةٍ‘‘. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! نَحْنُ نَعْذُرُكَ مِنْهُ. إِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا فِيهِ أَمْرَكَ. فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقَالَ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللهِ، لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ. فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ، فَقَالَ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ.
مسلمان کے مقابلے میں کفار سے تعاون و مدد کرنا یا اصطلاحا مظاہرت سے متعلق حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے اور مؤقف:
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الآراء مجموعے’’مجموع الفتاویٰ‘‘ کی ساتویں جلد کے صفحہ 523 پر فرماتے ہیں:
جب کوئی مسلمان کافر کے ساتھ محبت کرتا ہے یا اس کے ساتھ مل کر مسلمان کے مقابلے میں مدد فراہم کرتا ہے تو یہ عمل گناہ ہوگا لیکن کفر نہیں ہوگا؛ کیونکہ یہ عمل عقیدے کی بنیاد پر نہیں کیا گیا بلکہ یہ اپنی ذات، دنیوی مفاد یا کسی اور ضرورت کی وجہ سے کیا گیا ہوگا۔
الْأَصْلُ الثَّانِي: أَنَّ شُعَبَ الْإِيمَانِ قَدْ تَتَلَازَمُ عِنْدَ الْقُوَّةِ وَلَا تَتَلَازَمُ عِنْدَ الضَّعْفِ، فَإِذَا قَوِيَ مَا فِي الْقَلْبِ مِنَ التَّصْدِيقِ وَالْمَعْرِفَةِ وَالْمَحَبَّةِ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ أَوْجَبَ بُغْضَ أَعْدَاءِ اللَّهِ. كَمَا قَالَ تَعَالَى: ﴿وَلَوْ كَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالنَّبِىِّ وَمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِيَآءَ﴾ وَقَالَ: ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ﴾. وَقَدْ تَحْصُلُ لِلرَّجُلِ مُوَادَّتُهُمْ لِرَحِمِ أَوْ حَاجَةٍ، فَتَكُونُ ذَنْبًا يَنْقُصُ بِهِ إيمَانُهُ، وَلَا يَكُونُ بِهِ كَافِرًا، كَمَا حَصَلَ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بلتعة لَمَّا كَاتَبَ الْمُشْرِكِينَ بِبَعْضِ أَخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ﴾.
وَكَمَا حَصَلَ لِسَعْدِ بْنِ عبادة لَمَّا انْتَصَرَ لِابْنِ أبي فِي قِصَّةِ الْإِفْكِ. فَقَالَ: لِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ: كَذَبْت وَاللَّهِ؛ لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ؛ قَالَتْ عَائِشَةُ: وَكَانَ قَبْلَ ذَلِكَ رَجُلًا صَالِحًا وَلَكِنْ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ. وَلِهَذِهِ الشُّبْهَةِ سَمَّى عُمَرُ حَاطِبًا مُنَافِقًا، فَقَالَ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَضْرِبُ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ. فَقَالَ: "إنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا”، فَكَانَ عُمَرُ مُتَأَوِّلًا فِي تَسْمِيَتِهِ مُنَافِقًا لِلشُّبْهَةِ الَّتِي فَعَلَهَا. وَكَذَلِكَ قَوْلُ أسيد بْنِ حضير لِسَعْدِ بْن عبادة: "كَذَبْت لَعَمْرُ اللهِ لَنَقْتُلَنَّهُ؛ إنَّمَا أَنْتَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ”، هُوَ مِنْ هَذَا الْبَابِ.
وَكَذَلِكَ قَوْلُ مَنْ قَالَ مِنَ الصَّحَابَةِ عَنْ مَالِكِ بْنِ الدخشم: مُنَافِقٌ، وَإِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لِمَا رَأَى فِيهِ مِنْ نَوْعِ مُعَاشَرَةٍ وَمَوَدَّةٍ لِلْمُنَافِقِينَ. وَلِهَذَا لَمْ يَكُنِ الْمُتَّهَمُونَ بِالنِّفَاقِ نَوْعًا وَاحِدًا، بَلْ فِيهِمْ الْمُنَافِقُ الْمَحْضُ؛ وَفِيهِمْ مَنْ فِيهِ إيمَانٌ وَنِفَاقٌ؛ وَفِيهِمْ مَنْ إيمَانُهُ غَالِبٌ، وَفِيهِ شُعْبَةٌ مِنَ النِّفَاقِ. وَكَانَ كَثِيرٌ ذُنُوبُهُمْ بِحَسَبِ ظُهُورِ الْإِيمَانِ؛ وَلَمَّا قَوِيَ الْإِيمَانُ وَظَهَرَ الْإِيمَانُ وَقُوَّتُهُ عَامَ تَبُوكَ؛ صَارُوا يُعَاتَبُونَ مِنَ النِّفَاقِ عَلَى مَا لَمْ يَكُونُوا يُعَاتَبُونَ عَلَيْهِ قَبْلَ ذَلِكَ.
اسی طرح شیخ الاسلام علامہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ النبویۃ‘‘ میں بھی فرماتے ہیں:
فَإِنَّ عُثْمَانَ وَعَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ أَفْضَلُ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِينَ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ، وَكَانَ حَاطِبٌ مُسِيئًا إِلَى مَمَالِيكِهِ، وَكَانَ ذَنْبُهُ فِي مُكَاتَبَةِ الْمُشْرِكِينَ وَإِعَانَتِهِمْ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ أَعْظَمَ مِنَ الذُّنُوبِ الَّتِي تُضَافُ إِلَى هَؤُلَاءِ، وَمَعَ هَذَا فَالنَّبِيُّ ﷺ نَهَى عَنْ قَتْلِهِ، وَكَذَّبَ مَنْ قَالَ: إِنَّهُ يَدْخُلُ النَّارَ؛ لِأَنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ، وَأَخْبَرَ بِمَغْفِرَةِ اللَّهِ لِأَهْلِ بَدْرٍ. وَمَعَ هَذَا فَقَدَ قَالَ عُمَرُ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: دَعْنِي أَضْرِبُ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ. فَسَمَّاهُ مُنَافِقًا، وَاسْتَحَلَّ قَتْلَهُ، وَلَمْ يَقْدَحْ ذَلِكَ فِي إِيمَانِ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَلَا فِي كَوْنِهِ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ.
وَكَذَلِكَ فِي الصَّحِيحَيْنِ [وَغَيْرِهِمَا] فِي حَدِيثِ الْإِفْكِ لَمَّا قَامَ النَّبِيُّ ﷺ خَطِيبًا عَلَى الْمِنْبَرِ يَعْتَذِرُ مِنْ رَأْسِ الْمُنَافِقِينَ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَيٍّ فَقَالَ: ’’مَنْ يَعْذُرُنِي مِنْ رَجُلٍ [قَدْ] بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِي. وَاللهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا‘‘. فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ سَيِّدُ الْأَوْسِ، وَهُوَ الَّذِي اهْتَزَّ لِمَوْتِهِ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَهُوَ الَّذِي كَانَ لَا تَأْخُذُهُ فِي اللَّهِ لَوْمَةُ لَائِمٍ، بَلْ حَكَمَ فِي حُلَفَائِهِ مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ بِأَنْ يُقْتَلَ مُقَاتِلُهُمْ وَتُسْبَى ذَرَارِيهِمْ وَتُغْنَمُ أَمْوَالُهُمْ، حَتَّى قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ’’لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ مِنْ فَوْقِ سَبْعَةِ أَرْقِعَةٍ‘‘.
فَقَالَ: ’’يَا رَسُولَ اللَّهِ! نَحْنُ نَعْذُرُكَ مِنْهُ. إِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا فِيهِ أَمْرَكَ. فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقَالَ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللهِ، لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ. فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ، فَقَالَ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ.
اسی طرح حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب’’جامع المسائل‘‘ کی تیسری جلد صفحہ۷۹ پر فرماتے ہیں:
فهذا حاطبٌ قد تجسَّسَ على رسولِ الله ﷺ في غزوة فتح مكة التي كان ﷺ يَكتُمها عن عدوِّه، وكتَمها عن أصحابه، وهذا من الذنوب الشديدة جدًّا. وكان يُسيء إلى مماليكه، وفي الحديث المرفوع: "لن يدخلَ الجنَّةَ سيئُ الملكة”. ثم مع هذا لمَّا شَهِدَ بدرًا والحديبيةَ غفرَ الله له ورَضِيَ عنه، فإن الحسنات يُذهبن السيئات. فكيف بالذين هم أفضلُ من حاطبٍ، وأعظمُ إيمانًا وعلمًا وهجرةً وجهادًا، فلم يُدْنِبْ أحدٌ قريبًا من ذنوبه؟!
اسی طرح حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب’’حقوق آل البیت‘‘ کی تیسری جلد صفحہ۷۹ پر فرماتے ہیں:
فهذا حاطب قد تجسس على رسول الله ﷺ في غزوة فتح مكة التي كان ﷺ يكتمها عن عدوه، وكتمها عن أصحابه، وهذا من الذنوب الشديدة جدا.
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابوں سے ان اقتباسات کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ، باوجود یہ کہ وہ بہت سے مسائل میں شدت اور سختی کے حوالے سے مشہور ہیں اور وھابی تحریک کے پیروکار ان کی آراء کو ایسے اہمیت دیتے ہیں جیسے اہل سنت کے دیگر چار فقہی مسالک کے پیروکار اپنے ائمہ کرام کی آراء کو اہمیت دیتے ہیں۔
لیکن حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی مناصرت اور معاونت کے موضوع سے متعلق وہی مؤقف رکھتے ہیں جو اہل سنت والجماعت کے دوسرے اماموں اور رہنماؤں کا ہے۔ ان کے مطابق مناصرت اور معاونت کی وہ تمام صورتیں جو اوپر ذکر کی گئی ہیں، کبیرہ گناہوں میں داخل ہیں، کفر نہیں، کیونکہ یہ سب اعمال عقیدے کی بنیاد پر انجام نہیں دیے گئے بلکہ یہ یا تو قومی حمیت، ذاتی ضرورت، فائدہ یا قرابت کے باعث کیے گئے ہیں۔