امارت اسلامیہ کے خلاف داعشی خوارج کے پروپیگنڈے اوراعتراضات کا شرعی جائزہ | اٹھارہویں قسط

مولوی احمد علی

محمد بن سعید بن سالم القحطانی:

محمد بن سعید بن سالم القحطانی اپنی کتاب "الولا‌ء والبراء من مفاهیم عقیدة السلف” کی جلد اول صفحہ ۲۹۹ پر لکھتے ہیں:

والتجسس خيانة عظمى، وكبيرة من الكبائر إذا فعله المسلم. وهو من صور موالاة الكفار التي يتراوح الحكم فيها بين الكفر المخرج من الملة إذا كان تجسسه حباً في انتصار الكفار وعلو شوكتهم على المسلمين، وبين الكبيرة من كبائر الذنوب إذا كان لغرض شخصي أو دنيوي أو جاه أو ما أشبه ذلك.

وقد حذّر الله من ذلك في قصة حاطب بن أبي بلتعه رضي الله عنه في سورة الممتحنة..

قال تعالى: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ﴾.

ترجمہ: جو مسلمان دیگر مسلمانوں کے خلاف کافروں کے لیے جاسوسی کرتا ہے، یہ بہت بڑی خیانت اور کبیرہ گناہوں میں سے ایک سنگین گناہ ہے۔ یہ کافروں کے ساتھ دوستی اور تعلقات کے ان طریقوں میں سے ہے جن کی بنا پر یا تو انسان کافر ہو سکتا ہے یا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے۔

اگر جاسوسی صرف اس لیے کی جائے کہ اس مسلمان کو یہ پسند ہو کہ کفار مسلمانوں پر فتح پائیں، جنگ جیتیں اور مسلمانوں پر کافروں کی عظمت اور شوکت بڑھ جائے، اور اس کے پیچھے کوئی ذاتی یا دنیاوی مفاد نہ ہو، تو ایسی صورت میں وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا کیونکہ یہ جاسوسی عقیدے کی خرابی اور فساد پر مبنی ہے، نہ کہ دنیاوی یا ذاتی فائدے کے لیے؛ لیکن اگر یہ جاسوسی کسی ذاتی یا دنیاوی مفاد، عزت یا کسی اور مقصد کے لیے ہو، تو پھر وہ شخص کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا، کافر نہیں ہوگا اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔

اس کے بعد صفحہ ۳۰۳ پر رقم طراز ہیں:

مع أن في الآية ما يشعر أن فعل حاطب نوع موالاة، وأنه أبلغ بالمودة، فإن فاعل ذلك قد أضل سواء السبيل، لكن قوله ﷺ: "صدقكم، خلوا سبيله” ظاهر في أنه لا يكفر بذلك إذا كان مؤمناً بالله ورسوله غير شاك ولا مرتاب، وإنما فعل ذلك لغرض دنيوي، ولو كفر لما قيل: "خلوا سبيله”. أما الجاسوس الكافر فهذا يجب قتله، لأنه ﷺ قتل جاسوساً من المشركين.

شیخ عبدالله بن عبد العزیز بن حمادة الجبرین:

اسی طرح شیخ عبدالله بن عبد العزیز بن حمادة الجبرین اپنی کتاب "تسهیل العقیدة الإسلامیة” کی جلد اول، صفحہ ۵۶۳ پر لکھتے ہیں:

’’کسی مسلمان کا مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنا (چاہے وہ جنگی مدد ہو، اسلحہ اور مال کی مدد ہو، یا مسلمانوں کے خلاف کافروں کے لیے جاسوسی کا تعاون ہو، یا کسی اور طریقے سے ہو) دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

اول: ایسا تعاون جس میں کوئی ذاتی یا دنیاوی مفاد، لالچ یا دشمنی نہ ہو، صرف کافروں سے محبت ہو اور یہ خواہش ہو کہ کافر مسلمانوں پر غالب آئیں، تو ایسا تعاون اور مدد کفر کی علامت ہے اور "مخرج عن الملة” ہے۔ کیونکہ یہ تعاون عقیدے کی خرابی اور فساد پر مبنی ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ شخص مسلمانوں کے خلاف ہے اور کافروں کو پسند کرتا ہے، یہ چاہتا ہے کہ کافر غالب آئیں اور مسلمان شکست کھائیں۔ اس صورت میں وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس پر بعض اہل علم نے اجماع نقل کیا ہے۔

دوم: ایسا تعاون جو مسلمانوں کے خلاف کافروں کے ساتھ ہو، لیکن اس میں عقیدے کی خرابی اور فساد نہ ہو، بلکہ یہ کسی دنیاوی یا ذاتی فائدے، یا کسی خوف، یا کسی ایسی دشمنی کی وجہ سے ہو جو کافروں کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ہو، تو ایسا تعاون کفر یا "مخرج عن الملة” نہیں ہوتا۔ یہ حرام عمل ہے اور کبیرہ گناہ ہے، لیکن اس سے وہ شخص کافر یا دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔

اس بات کی دلیل کہ اس قسم کا تعاون کفر میں داخل نہیں ہے، اہل علم کا اجماع ہے، جسے امام طحاوی رحمہ اللہ نے مسلمان جاسوس کے قتل کے عدم جواز پر نقل کیا ہے؛ اس اجماع کا مفہوم یہ ہے کہ وہ شخص جو مسلمانوں کے خلاف کافروں کے ساتھ تعاون کرتا ہے، وہ کافر یا مرتد نہیں ہے۔ اس اجماع کا مستند اور دلیل حاطب بن ابی بلتعة رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے، اس واقعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی شخص کا کافروں کے ساتھ تعاون کرنا، خواہ وہ مسلمان کے خلاف ہو، اگر اس میں عقیدے کی خرابی نہ ہو، تو وہ کافر یا مرتد نہیں ہوتا۔”

عبارت یہ ہے:

موالاة الكفار بإعانتهم على المسلمين:

إعانة الكفار على المسلمين سواء أكانت بالقتال معهم، أم بإعانتهم بالمال أو السلاح، أم كانت بالتجسس لهم على المسلمين، أم غير ذلك تكون على وجهين:

الوجه الأول: أن يعينهم بأي إعانة محبةً لهم ورغبةً في ظهورهم على المسلمين، فهذه الإعانة كفر مخرج من الملة. وقد حكى غير واحد من أهل العلم إجماع العلماء على ذلك.

الوجه الثاني: أن يُعين الكفارَ على المسلمين بأي إعانة، ويكون الحامل له على ذلك مصلحة شخصية، أو خو ف أو عداوة دنيويّة بينه وبين من يقاتله الكفار من المسلمين، فهذه الإعانة محرمة وكبيرة من كبائر الذنوب، ولكنها ليست من الكفر المخرج من الملة.

ومن الأدلة على أن هذه الإعانة غير مكفرة: ما حكاه الإمام الطحاوي من إجماع أهل العلم على أن الجاسوس المسلم لا يجوز قتله، ومقتضى ما حكاه الطحاوي أنه غير مرتد.

ومستند هذا الإجماع: أن حاطب بن أبي بلتعة رضي الله عنه قد جسَّ على النبي ﷺ وعلى المسلمين في غزوة فتح مكة، فكتب كتاباً إلى مشركي مكة يخبرهم فيه بمسير النبي ﷺ إليهم، وكان النبي عليه الصلاة والسلام قد أخفى وجهة سيره، لئلا تستعد قريش للقتال، وكان الدافع لحاطب رضي الله عنه لكتابة هذا الكتاب هو مصلحة شخصية، ومع ذلك لم يحكم النبي ﷺ بردته، ولم يُقمْ عليه حدَّ الردة، فدلَّ ذلك على أن ما عمله ليس كفراً مخرجاً من الملة، وهذا كله إنما هو في حق من كان مختاراً لذلك، أما من كان مكرهاً او ملجئاً إلى ذلك إلجاءً اضطرارياً كمن خرج مع الكفار لحرب المسلمين مكرهاً ونحو ذلك فلا ينطبق عليه هذا الحكم؛ لقوله تعالى: ﴿اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً﴾ [آل عمران: 28].

"تسهیل العقیدة الإسلامیة” کے مصنف شیخ عبد الله بن عبد العزیز بن حمادة الجبرین اپنی کتاب کی جلد اول صفحہ ۵۶۷ کے حاشیے میں لکھتے ہیں:

جب متاخرین علماء نے کفار کے مددگاروں کے تکفیر پر اجماع نقل کیا ہے، تو یہ اجماع پہلی قسم (جہاں کسی شخص کا مقصد صرف کافروں کے ساتھ محبت اور مسلمانوں کے خلاف ان کی کامیابی کی خواہش ہو) پر مبنی ہے، دوسری قسم کے معاونین پر یا مطلق طور پر ہر قسم کے معاونین پر حمل کرنا غلطی ہے۔

دوسری قسم کے معاونین کی تکفیر سے متعلق متقدمین علماء کا اجماع یہ ہے کہ وہ کافر یا مرتد نہیں ہیں۔ یہ اجماع صحیح ہے، کیونکہ اس قسم کے تعاون میں عقیدے کی خرابی یا فساد کا عنصر شامل نہیں ہوتا، بلکہ یہ کسی دنیاوی غرض یا خوف کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس لیے، اس قسم کے تعاون کو کفر نہیں کہاجاسکتا۔

ومن أطلق من العلماء المتأخرين حكاية هذا الإجماع على كفر من أعان الكفار فيحمل على من أعانهم محبةً لهم ورغبةً في ظهورهم على المسلمين، ولا يصح حمله على عموم الإعانة مهما كان الحامل عليها؛ لأن في ذلك دعوى الإجماع على ما حكى بعض العلماء المتقدمين الإجماع على ضده، وهو تحريم قتل الجاسوس، وهو إجماع صحيح فيما يتعلق بعدم ردته، أما تحريم قتله فقد حكي إجماعاً، وقيل: إنه قول الجمهور كما سيأتي قريباً إن شاء الله تعالى.

نقل الحافظ في الفتح 12/310 عن الإمام الطحاوي أنه حكى الإجماع على أن الجاسوس المسلم لا يُباح دمه، أي أنه غير مرتد، فلا يقام عليه حد الردة، ولا يقتل تعزيراً.

وحكى القرطبيُّ في المفهم 3/47، و7/440-442، والقاضي عياض في إكمال المعلم 6/71، و7/539، وابن الملقن في الإعلام 10/322، والحافظ في الفتح 12/310 هذا القول عن الجمهور، وذكروا أن بعض أهل العلم قالوا بجواز قتله تعزيراً. وينظر: المعلم 3/160، كشف المشكل 1/141، معالم السنن 4/4، عارضة الأحوذي 12/193، زاد المعاد 3/114، 115، الفروع: التعزير 6/113-115، كشاف القناع: التعزير 6/126.

وقال أبو العباس القرطبي في المفهم 6/442 عند شرحه لقصة حاطب: "ومن جملة ما فيه من الفقه: أن ارتكاب الكبيرة لا يكون كفراً”، وقال القاضي عياض 7/395: "فيه أن التجسس لا يخرج عن الإيمان”.

وقال النووي في شرح مسلم 16/55: "فيه أن الجاسوس وغيره من أصحاب الذنوب الكبائر لا يكفرون بذلك، وهذا الجنس كبيرة قطعاً؛ لأنه يتضمن إيذاء النبي ﷺ، وهو كبيرة بلا شك، لقوله تعالى: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ﴾ [الأحزاب:57] ” أخرج حديث قصةَ حاطب رضي الله عنه البخاريُّ في الجهاد، باب الجاسوس "3007”، ومسلم في الفضائل "2494”، وقال النووي في شرح مسلم 16/57،56 عند شرحه لقصة حاطب: "قال العلماء: معناه الغفران لهم أي لأهل بدر في الآخرة، وإلا فلو توجَّه على أحد منهم حد أو غيره أُقيم عليه في الدنيا، ونقل القاضي عياض الإجماعَ على إقامة الحد، وأقامه عمر على بعضهم، وضرب النبي ﷺ مِسْطحاً الحد وكان بدرياً”، وقد حكى الإجماع أيضاً على وجوب إقامة الحدود على أهل بدر ابنُ بطال في شرح البخاري 8/597، والحافظ في الفتح 7/306، والعيني في عمدة القاري 24/95، وقد يكون نقله عن التوضيح، ونقل قول النووي ابن مفلح في الفروع 6/115 وعلى القاري في المرقاة 5/631 مقرَّين له.

خلاصہ یہ ہے کہ جہاں جہاں کفار کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف تعاون، مظاہرہ یا حمایت پر مطلقًا کفر کا حکم دیا گیا ہے، وہ اصل میں پہلی قسم کے تعاون پر لاگو ہوتا ہے، جس میں عقیدے کی خرابی اور فساد شامل ہوتا ہے۔

لیکن دوسری قسم میں، جہاں کفار سے مسلمانوں کے خلاف تعاون کسی دنیاوی یا ذاتی مفاد، رشتہ داری یا دشمنی کی وجہ سے ہو، تو یہ عمل حرام اور کبیرہ گناہ ہے، مگر یہ کفر یا ارتداد نہیں ہے۔ اس پر علماء سلف جیسے امام محمد رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ اور دیگر متقدمین کے اقوال اور فتاوے موجود ہیں، جن میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ ایسے عمل کا کفر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اہل سنت و الجماعت کے متقدمین اور متاخرین کی اکثریت کا موقف اس بات پر واضح ہے کہ وہ اس نوعیت کے معاملات میں تکفیر نہیں کرتے، بلکہ اس میں تفصیل پیش کرتے ہیں اور کسی بھی مجمل یا محتمل حکم پر فتویٰ نہیں دیتے، خصوصًا تکفیر کے مسائل میں بہت زیادہ احتیاط برتتے ہیں۔

علامه ابن القیم رحمه الله فرماتے ہیں:

فعليك بالتفصيل والتبيين فإن إطلاق والإجمال دون بيان قد أفسدا هذا الوجود وخبطا الأذهان والآراء كل زمان.

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے ذاتی فہم کے مقابلے میں سلف صالحین کے فہم کو ترجیح دیتا ہے، کیونکہ ان کا فہم حقیقت کے قریب ترین اور درست فہم ہوتا ہے۔ سلف صالحین کے اصولوں اور فہمی پر عمل کرنا ہی اہل سنت و الجماعت کا صحیح طریقہ ہے۔

اس کے برعکس، فرق ضالہ (گمراہ فرقے) جیسے خوارج، معتزلہ اور دیگر وہ گروہ ہیں جو سلف صالحین کے فہم کو معیار نہیں مانتے، بلکہ اپنے ذاتی یا انفرادی خیالات کو مقدم رکھتے ہیں۔ یہ گروہ کسی بھی معاملے میں تفصیل نہیں کرتے اور ایک طرفہ یا سطحی فہم پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان فرقوں کی خصوصیت یہی ہے کہ وہ اصولی طور پر تفصیل سے گریز کرتے ہیں اور سلف کے علم و فہم کو مسترد کرتے ہیں، جو کہ اہل سنت و الجماعت کا طریقہ نہیں ہے۔

Author

Exit mobile version