امارت اسلامی افغانستان ایک مکمل اسلامی، خدا اور عوام کے سامنے جواب دہ نظام کے طور پر ہمیشہ اس کوشش میں رہی ہے کہ دہائیوں پر محیط جنگوں کے سیاہ دور سے نکلے ہوئے عوام کو امن، سکون اور خوشیوں کی راہ پر گامزن کرے، اور جنگ کے جسمانی و روحانی زخموں کا مداوا کرے۔ اس مقصد کے لیے امارت نے مختلف پالیسیاں اور ادارے تشکیل دیے ہیں۔ انہی اداروں میں سے ایک عظیم و اہم وزارت "امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور شکایات کی سماعت” کی وزارت ہے، جس کی سرگرمیاں اور خدمات اس کے قیام کے دن سے لے کر آج تک قابلِ مشاہدہ ہیں۔ اس وزارت نے شہروں، اضلاع اور دیہاتوں میں خیرخواہی اور اصلاح کا پیغام عام کیا ہے اور اپنے محتسبین کے ذریعے بہترین اخلاق اور انداز میں دینی ارشادات اور الٰہی ہدایات عوام تک پہنچائی ہیں۔
اسلامی امارت نے امر بالمعروف کو ایک خیر خواہی کی مہم اور دینی ذمہ داری کے طور پر جنگ کے سخت ترین اور پُرخطر محاذوں پر بھی ترک نہ کیا، بلکہ فتح سے پہلے بھی ایک منظم ڈھانچے کے تحت مختلف شعبوں میں اس کے کمیشن قائم کیے تاکہ عوام کی فکری تربیت کی جائے اور مغربی دنیا اور قابض قوتوں کی ان فکری و ذہنی یلغاروں کا توڑ کیا جائے جو دوستی اور بھائی چارے کی ظاہری لفاظی کے ساتھ نوجوان نسل پر ثقافتی حملوں کی صورت میں تھوپی گئی تھیں۔
1۔ اسلام اور نظام کی بہترین تصویر پیش کرنا
امارت اسلامی ایک شرعی نظام ہے جو حنفی فقہ کی روشنی میں تمام امور چلاتی ہے۔ یہ نظام اپنے رب اور عزیز وطن کے عوام سے خدمت اور اسلامی اقدار کی پاسداری کے وعدے کیساتھ وجود میں آیا ہے ۔ نیکی کی دعوت اور بھلائی کی طرف رہنمائی دین کا تقاضا بھی ہے اور امارت کی عوامی ذمہ داری بھی۔ جب محتسبین اپنی دینی ذمہ داریاں احسن انداز میں نبھاتے ہیں تو اس سے دین اسلام اور اسلامی نظام دونوں کا ایک شفاف اور مثبت تاثر قائم ہوتا ہے۔
2۔ اسلامی شعائر اور اقدار سے وابستگی
امر بالمعروف کے نفاذ کے نتیجے میں عوام میں اسلامی شعائر اور اقدار سے گہرا تعلق قائم ہوتا ہے، دینی شعور بیدار ہوتا ہے، اور ایک ایسا باشعور دینی معاشرہ وجود میں آتا ہے جو فرقہ واریت، نسلی تعصب اور علاقائی تفریق سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس سے حکام و رعایا دونوں کے درمیان دینی اقدار کے ساتھ ایک ایمانی وابستگی جنم لیتی ہے۔
3۔ نوجوان نسل کو دینی و ثقافتی شعور دینا
گزشتہ بیس سالہ قبضے کے دوران فکری اور ثقافتی حملوں کا خاص ہدف نوجوان نسل تھی۔ اس مقصد کے لیے مختلف میڈیا اور ذرائع استعمال کیے گئے تاکہ نوجوانوں کو ان کے دینی و ثقافتی ورثے سے دور کیا جا سکے اور وہ مغربی و امریکی اقدار کو اپنانے لگیں۔ اس فکری یلغار کے اثرات ختم کرنے اور نئی نسل کو اپنے دینی تشخص سے دوبارہ جوڑنے کے لیے امر بالمعروف کی مہم انتہائی اہمیت رکھتی ہے اور عصرِ حاضر میں اس کی ضرورت مزید بڑھ چکی ہے۔
4۔ دین کی صحیح تبلیغ اور ثقافتی قبضے کا خاتمہ
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، ثقافتی قبضے کا خاتمہ آسان کام نہیں، بلکہ یہ ایک طویل المدتی مرحلہ ہے۔ مغربی میڈیا اور سابقہ حکومتی اہلکاروں کے پروپیگنڈے تاحال جاری ہیں۔ اس لیے آج کے افغان ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ وہ دین اور حقیقت کی روشنی عوام تک پہنچانے کے لیے اپنا دینی و قومی کردار ادا کریں۔ خوش قسمتی سے یہ عمل جاری ہے۔ دینی پروگراموں میں اضافہ ہوا ہے، وزارت کی تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں مسلسل جاری ہیں، اور جب عوام میں یہ شعور پیدا ہوگا کہ دین کی حفاظت صرف ریاست کی نہیں بلکہ ہر فرد کی مشترکہ ذمہ داری ہے تو تب ہی برائیوں کو روکنے کے لیے ایک اجتماعی قوت پیدا ہوگی۔
گزشتہ حکومت کے دور میں جب کوئی شہری شہروں یا دوردراز علاقوں میں جاتا تو لوگوں کے لباس، وضع قطع اور طرزِ زندگی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ یہ کوئی افغان معاشرہ نہیں۔ خاص طور پر نوجوان ہر قسم کے مغربی تقلید کو اپنائے ہوئے تھے۔ لیکن آج، الحمدللہ، امر بالمعروف کی برکت سے معاشرتی وضع قطع اور لباس میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، اور ایک اسلامی معاشرہ کا خوبصورت منظر پیش کیا جا رہا ہے۔
آخر میں ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ امر بالمعروف صرف انفرادی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر فرد اور معاشرے کے ہر طبقے کو یہ ایمانی فریضہ اپنی بساط کے مطابق انجام دینا چاہیے۔ برائیوں پر خاموشی اختیار کرنا ایک اور ظلم کے دروازے کھول دیتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ وزارت کے معزز وزیر نے اپنے حالیہ دورۂ ہرات کے دوران گلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ علماء و دینی شخصیات امر بالمعروف کے میدان میں وہ تعاون نہیں کر رہیں جس کی توقع تھی۔ وزیر صاحب کی بات بالکل درست ہے؛ ایک ہاتھ سے تالیاں نہیں بج سکتیں۔ علمائے کرام اور معاشرے کے ذمہ دار افراد کو چاہیے کہ وہ مشترکہ طور پر برائیوں کے خاتمے اور بھلائیوں کے فروغ کے لیے کردار ادا کریں، اور اس امر بالمعروف کی جدوجہد کو اپنا شرعی فریضہ سمجھیں۔