گذشتہ قسط میں امارت اسلامی کے عدالتی و قضائی فیصلوں سے متعلق ایک معیار و مأخذ کا ذکر تھا جو قرآن مجید تھا، جس کو ہم نے مکمل وضاحت کے ساتھ لکھا، اب میں باقی معیاروں کی تفصیل پیش کرنا چاہتا ہوں:
۲۔ احادیث نبوی:
اگر امارت اسلامی کی عدلیہ کو پیش کیے جانے والے معاملات و تنازعات کے فیصلے قرآن مجید میں نہ ملیں تو پھر یہ معاملات نبوی ارشادات (احادیث) کی روشنی میں دیکھے جاتے ہیں اور صحیح (مضبوط) احادیث کے مطابق فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حدِ سرقہ کا ذکر قرآن میں ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، لیکن اس میں تفصیل نہیں دی گئی کہ کتنی مالیت کی چیز پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا، یہ تفصیل حدیث شریف میں ذکر کی گئی ہے۔
رسول الله صلی الله علیه وسلم کی احادیث بذات خود شرعی حجت ہیں، کیونکہ جو بھی لفظ رسول اکرم صلی الله علیه وسلم کی زبان سے نکلا، وہ اللہ کی جانب سے وحی شمار ہوتا ہے اور اللہ تعالی اس بارے میں فرماتا ہے:
«وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰٓ (۵) إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡيٌۭ يُوحَىٰ » [سورہ النجم: ۴]
ترجمہ: یہ (محمد صلی الله علیه وسلم) اپنے نفس کی خواہش سے نہیں بولتے، یہ (قرآن) صرف ایک وحی ہے جو ان پر نازل ہوتی ہے۔
اسی طرح ام سلمہ رضی الله عنها کی ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم نے ان دو افراد سے جو اپنی بعض چیزوں سے متعلق وراثت کا دعویٰ کر رہے تھے، فرمایا:
"یہ بات واضح ہے، جس بارے میں مجھ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، اس میں میں اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا۔” [رواہ ابو داود]
یہ حدیث بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم کی باتیں وحی کی بنیاد پر ہیں اور ان کی احادیث ایک شرعی حکم کی حیثیت رکھتی ہیں۔
۳۔ اجماع:
اجماع بھی امارت اسلامی کے عدالتی فیصلوں کا ایک منبع و اصل ہے، جب کسی موضوع پر عدلیہ کی جانب سے تفصیلی تحقیق کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں قرآن مجید یا احادیث نبوی میں کوئی حکم نہ ملے تو عدلیہ کے ذمہ داران ان مسائل کو اجماع کے ذریعے حل کرتے ہیں۔ اجماع کا مطلب امت مسلمہ کے علماء کا کسی مسئلے پر اتفاق ہونا، اگرچہ اجماع بذات خود ایک وسیع اور طویل بحث کا متقاضی ہے جس کی تفصیل کا یہاں تقاضا نہیں۔
اس سلسلے میں عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی ایک حدیث ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
"جسے بھی کوئی فیصلہ کرنا ہو، وہ قرآن مجید کی روشنی میں فیصلہ کرے، اگر ایسا معاملہ ہو جس کا حکم قرآن میں نہ ہو تو مذکور معاملے سے متعلق جو رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فیصلہ کیا ہو، اس کی تعمیل کرے اور اگر ایسا معاملہ آ جائے جو نہ قرآن میں موجود ہو اور نہ رسول الله صلی الله علیه وسلم نے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہو تو وہ اس پر فیصلہ کرے جو اسلاف نے کہا ہو اور اگرایسا قضیہ پیش آجائے جس کا حکم قرآن میں موجود ہو نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے متعلق کوئی فیصلہ کیا ہو اور نہ ہی اسلاف کا کوئی قول موجود ہو تو وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اگر اس کے پاس کوئی صحیح رائے نہ ہو تو پھر وضاحت دے دے اور اس میں شرم محسوس نہ کرے۔” [رواہ الحاکم فی المستدرک]
۴۔ قیاس:
امارت اسلامی کے عدالتی فیصلوں کا چوتھا اصل اور معیار قیاس ہے، جو اسلامی شریعت میں احکام کے اثبات کے لیے قرآن، حدیث اور اجماع کے بعد چوتھا منبع و اصل ہے جس پر احکام اسلام کا مدار ہے۔
قیاس لغت میں اندازہ کرنے کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں اشتراک علت کی بناء پرحکم منصوص(جن کا صریح حل قرآن وسنت میں موجود ہے) کو غیر منصوص(جن کا صریح حل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے) میں جاری کرنا یاقرآن وسنت میں صراحت سے بیان کیے ہوئے حکم کوایسی چیز میں جاری کرنا جس کاحکم صراحتاً مذکور نہیں- اس بناء پر کہ قرآن وسنت میں بیان کیے ہوئے حکم کی علت اس چیز میں بھی پائی جاتی ہے۔
قیاس کی حجیت کے لیے قرآن مجید اور احادیث نبوی میں کئی مثالیں موجود ہیں، جن میں سے یہ دو آیات قیاس کی حجیت پر واضح دلالت کرتی ہیں:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ.(الآیة)
وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُو۟لِى ٱلْأَمْرِۦ مِّنْهُمْ لَعَلِمَهُ ٱلَّذِينَ يَسْتَنۢبِطُونَهُۥ مِنْهُمْ.(الآیة)
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: جب آپ کے پاس کوئی تنازعہ آئے گا تو آپ کیسے فیصلہ کریں گے؟ انہوں نے کہا: میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا، اگر اللہ کی کتاب میں نہ ملے؟ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر دونوں میں نہ ملے؟ انہوں نے کہا: میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ توفیق دی جس سے اللہ کے رسول راضی ہیں۔[سنن ابو داؤد]
لہذا، مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ امارت اسلامی کے عدالتی فیصلوں کا معیار وہ اصول ہیں جو شرعی احکام کے اثبات کے لیے مقرر کیے گئے ہیں اور جو فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں متفق علیہ سمجھے جاتے ہیں۔