یہ سوال بہت عام اور سادہ ہے، لوگوں نے اس کا جواب بھی دیا لیکن بہت سوں نے غلط جواب دیا، غلط اس اعتبار سے کہ ایک دوسرے کے گروہوں پر اس طرح کا الزام لگایا جیسے امت کے اصل دشمن وہی ہیں لیکن حقیقت کا اظہار کسی نے نہیں کیا اور نہ ہی درست معنوں میں امت کے دشمنوں کی جانب اشارہ کیا۔
امت مسلمہ اور بحثیت مجموعی اسلام دشمنوں کو پہچاننا مہارت کا متقاضی ہے اور دشمن کی پہچان کا ہنر ایک ایسا ہنر ہے جس کا حصول ایک مشکل امر ہے۔
امت مسلمہ کے اور بحثیت مجموعی اسلام دشمن صرف کفار نہیں بلکہ مسلمانوں کے لبادے میں ہر وہ شخص اسلام دشمن ہے جو:
- امت کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہو۔
- امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیرنے پر تلا ہو، علما کو شہید کرتا ہو، ماہرین کو ختم کرتا ہو، مسلمانوں کے علم و عبادت کے مراکز، مساجد اور مدارس کو نشانہ بناتا ہو اور نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہو۔
- امت کے غیرت مند ابطال کو شہید کرتا ہو اور امت کو کمزور کرنے کے منصوبوں پر عمل کرتا ہو۔
- جہاد، مجاہد، خلافت اور شریعت کے نام کو اپنے بے دریغ مظالم سے بدنام کرتا ہو۔
- دار الکفر چھوڑ کر دار الاسلام میں جہاد کے نام پر فساد پھیلانے جاتا ہو۔
- مسلمانوں کی عزت اور مال لوٹتا ہو اور کفر کی بجائے مسلمانوں کو ختم کرنے کے در پہ ہو۔
- جہالت کی بنیاد پر تکفیر کرتا ہو اور اپنے سوا کسی کو مسلمان نہ سمجھتا ہو۔
غیرہ وغیرہ۔۔۔
یہ اور ایسی دیگر بہت سی صفات ہیں جو امت کے ذلیل دشمن میں پائی جاتی ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کام کون کرتا ہے؟ کون ہے جو علماء کو شہید کرتا ہے، اور عام مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے؟
اب اگر ہم غور کریں تو امت مسلمہ کے دشمن بہت آسانی سے ہمارے سامنے آ جائیں گے، آپ سوچیں کہ غزہ میں مسلمانوں پر کس قدر مظالم ڈھائے جاتے ہیں اور ڈھائے جا رہے ہیں، اب ان لوگوں کو ، جو اسلام کی سربلندی اور خلافت کے نعرے لگاتے ہیں، چاہیے تو یہ تھا کہ وہاں اپن لشکر روانہ کرتے، مسلمانوں کی مدد و نصرت کرتے، اور غزہ میں لڑنے والے مجاہدین کے ہاتھ مضبوط کرتے، لیکن یہ گروہ جسے داعش کے نام سے جانا جاتا ہے، مسلمانوں اور مجاہدین کے مفاد اور دفاع میں لڑنے کی بجائے الٹا مجاہدین کے خلاف لڑتا ہے، غزہ کے مجاہدین کو مرتدین اور مشرکین کے نام سے پکارتا ہے، اور یہودیوں کی بجائے ان کے مقابلے میں شہید ہونے والوں کو اپنا اولین ہدف بناتا ہے۔
اسی طرح جب افغانستان کی سرزمین پر اسلامی نظام اقتدار میں آیا، کفر کو شکست ہوئی اور کفر کے غلاموں کو نکال باہر کیا گیا، تو یہاں بھی چاہیے تو یہ تھا کہ داعشی خبیث ان سرزمینوں پر جنگ اور جہاد کی شمع جلاتے کہ جہاں ضرورت تھی، جہاں مؤمنین پر سختیاں اور مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، جہاں اسلام کے ہر حکم کو پامال کیا جا رہا ہے، لیکن یہاں بھی اس کے برعکس بیرونی انٹیلی جنس کے پیسوں اور کفار کے ٹکڑوں پر پلنے والے خوارج نے ایک بار پھر اسلامی نظام کے خلاف بغاوت کر دی، اور کفر کی بجائے مومنین کو ختم کرنا شروع کر دیا، علماء کو شہید کیا، اور عام مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا، اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکم پر لبیک کہا۔ لیکن الحمد للہ امارت اسلامیہ نے کامیابی سے خوارج کو افغانستان میں اس طرح پسپا کیا کہ دیگر دنیا کے مسلمانوں کو بھی اس کی خیر حاصل ہوئی اور ان کے شر سے امن حاصل ہوا، یعنی امارت اسلامیہ امت کی نجات کی واحد مثال بن گئی اور داعشی خوارج امت مسلمہ کے دشمن۔
اسی طرح باقی عرب دنیا میں اسلام کے دفاع میں لڑنے والے مجاہدین کے خلاف کون کھڑا ہوا؟ عالمی جہادی تنظیم قاعدۃ الجہاد کو کس نے توڑا؟ کفار کی آنکھ کا کانٹا بننے والے مجاہدین کا خون کس کے ہاتھوں پر ہے؟ شام، عراق اور صومالیہ میں مجاہدین کے خلاف کس نے مورچے سنبھالے؟ مومنین کی تکفیر کون کرتا ہے؟ کون ہے جس نے مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر کفار کی بجائے مسلمانوں کو ختم کرنے پر کمر کس رکھی ہے؟
اسی طرح تحریک طالبان کے مجاہدین کے خلاف بھی داعشی خوارج نے مؤقف اختیار کیا اور ان مجاہدین کو بھی بدنام کیا یہاں تک کہ انہیں مرتدین تک کہا۔
فتنوں کے اس دور میں اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن یہود و نصاریٰ کے بعد داعشی خوارج کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو بدنام کرنے اور ختم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے لیکن وہ اپنی یہ قسم کبھی پوری نہیں کر پائیں گے ان شاء اللہ العزیز۔
ذلت آمیز موت ان کی منتظر ہے!
وما علینا الا البلاغ