علماء زمین پر چمکتے ستارے ہیں، ان کے وجود سے پوری زمین خوبصورت اور نورانی ہوتی ہے۔
اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
اَلْعُلَمَاءِ فِي اَلْأَرْضِ مِثْلَ اَلنُّجُومِ فِي اَلسَّمَاءِ
ترجمہ: علماء زمین پر آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اَلعُلَماءُ نُجُومُ الاَرضِ
ترجمہ: علماء زمین کے ستارے ہیں۔
رات کے وقت سیاہ آسمان اور بہت سے چمکتے ستاروں کی موجودگی میں انسان کو ستاروں کی قدر و قیمت کا اتنا اندازه نہیں ہوتا جتنا تاريک اندھیری رات میں سفر کے وقت!!
جی ہاں! ایسا ہی لوگوں کو زندگی میں علماء کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا، جیسے ان کے نہ ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔
جب شہید شیخ رحیم اللہ حقانی کی طرح علم و حکمت کے مینار اور زمین پر چمکتا ہوا ستارہ گرتا ہے، تو اندھیرا اور تاریکی اپنی چادر پھیلاتی ہے، پھر انسانوں کے لیے ایک ناقابل تلافی دکھ اور خوف ہوتا ہے۔
موت حق ہے لیکن ایسی ہستیوں کی موت پوری دنیا کی موت ہے۔
شہید شیخ صاحب نہ صرف افغانستان کے مسلمان عوام کے لیے روشنی کا چراغ تھے۔ بلکہ وہ پوری امت مسلمہ کے لیے حقیقی رہنما اور پیشوا تھے۔
شہید شیخ صاحب اس زمانے کے امام رازی تھے، وہ علمی خدمات کے علاوہ جہاد کے عظیم مبلغ اور ایک عملی مجاہد رہنما تھے، اور انہوں نے اس راہ میں نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں۔
شیخ صاحب نے اپنے علم کی بنیاد پر دین کا بھرپور دفاع کیا، وہ وقت کے نا اہل اور منفور گروہوں کیلئے آنکھوں کے خار تھے، اہلسنت والجماعت کے منہج کا انہوں نے انتہائی جرات اور جان کی بازی لگا کر دفاع کیا، انہوں نے اس راستے میں کسی قسم کے خوف اور خطرے کی پرواہ نہیں کی، وہ دین و ملت کے دشمنوں کے خلاف اکیلے محاذ پر ڈٹے رہے۔
شہید استاد نے اپنی زندگی علم، جہاد اور اہل السنۃ والجماعۃ کے مقدس منہج کے دفاع اور فتنوں کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کے میدان میں گزاری۔
وہ مضبوط استدلال کے محکم محاذ تھے اور ہمت کا سرچشمہ تھے، آخر کار ایک کمزور اور بزدلانہ حملے میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
امت ان کی علمی خدمات اور احسان عظیم کی مقروض ہے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون