امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کو عرب و عجم میں لوگ ملا عمر اور عمر ثالت کے نام سے جبکہ ہمارے معاشرے میں بڑے ملّا صاحب کے نام سے جانتے ہیں۔
ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ وہ شخصیت ہیں جو گھور اندھیروں کے سامنے روشن صبح کی مانند ڈٹ گئے، وہ جوانمرد جس نے اپنی خودمختار بادشاہی کو ایک مہمان پر قربان کر ڈالا۔ وہ ملا ہیں جنہیوں نے اپنی زندگی دو عظیم سلطنتوں کے خلاف جنگ میں بسر کی۔
بڑے ملّا صاحب نور اللہ مرقدہ کی مخصوص شخصیت پر بہت زیادہ لکھنے اور لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے لیکن بندہ کے کمزور قلم میں اتنی سکت نہیں۔ ملا صاحب رحمہ اللہ کی ذات کا تعارف کروانے کی اب اتنی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ ملا صاحب ایک ایسی شخصیت ہیں کہ مشرق و مغرب میں سب ان سے واقف ہیں، اس لیے ضرورت ان کے تعارف کی نہیں بلکہ اس امر کی ہے کہ آپ رحمہ اللہ کے افکار، عقائد، اصول، مقدس طریقے اور اسلام کے لیے ان کی قربانیوں کا لوگوں کو ادراک دلایا جائے۔
بڑے ملا صاحب کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے گیارہ سال گزر چکے کیونکہ بہرحال بڑے ملا صاحب ایک انسان تھے، دیگر انسانوں جیسا جسم اور قد و قامت رکھتے تھے لیکن ملا صاحب کی دیگر خوبیوں کے علاوہ وہ بہت مختلف انسان تھے۔ آپ رحمہ اللہ انیسویں، بیسویں اور اکیسویں صدی کی نسلوں سے بالکل جدا فکر اور عقیدہ رکھتے تھے, ایسا عقیدہ جس کی بنیاد پر خانہ جنگی اور کفر و فساد کا خاتمہ ہوا اور جس کی برکت سے ایک اسلامی نظام قائم ہوا۔
ملا صاحب نے مختصر عرصے میں جو بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے وہ سب اسلام اور اسلامی نظام کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں، ہم سب آپ رحمہ اللہ کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی دیکھتے ہیں کہ کفر کی شکست، پوری دنیا میں واحد اسلامی نظام کا قیام، دشمنوں کو سرنگوں کرنا اور افغانستان جیسے وسیع جغرافیہ پر امن کا قیام، یہ وہ چیزیں ہیں جو بڑے ملا صاحب کی پہلی جدو جہد کی برکت سے ہم تک پہنچی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت سی مثالیں ہیں جس کے لیے "ثالث عمر” کتاب کا مطالعہ کریں۔
اگرچہ میں نے ذاتی طور پر امیر المؤمنین رحمہ اللہ کو نہیں دیکھا لیکن چشم دید لوگوں سے میں نے ان کے اوصاف سنے ہیں، حتیٰ کہ ان کے دشمنوں کے منہ سے بھی آپ رحمہ اللہ کی بہادری کی داستانیں سنی ہیں۔ میرے کانوں تک ان بدبخت ظالموں کی باتیں بھی پہنچی ہیں جو ظلم میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن وہ ملا صاحب کی دشمنی پر فخر کرتے ہیں کہ ہماری دشمنی ایک غیرت مند جوانمرد سے ہے کیونکہ وہ دوستی اور دشمنی دونوں میں جوانمردی کی خو رکھتے تھے۔ اگر دشمنی کرتے تھے تو چال اور فریب سے نہیں بلکہ مردانگی سے کرتے اسی طرح ان کی دوستی کی مثالیں بھی آپ نے سن رکھی ہیں۔ اسلامی نظام کا قیام، پھر مہمانوں کی حفاظت، اور آج تک جہاد و رباط کے راہی حضرت ملا صاحب رحمہ اللہ کی قیادت کی وہ خوبیاں ہیں، جو آج تک عالم کفر کی آنکھ کا کانٹا ہیں۔
اگر امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے اوصاف کی بات کی جائے تو وہ ایسی منفرد شخصیت تھے کہ میں ان کے اوصاف بیان کرنے سے قاصر ہوں لیکن یہاں بعض وہ خصوصیات لکھوں گا جو پوری دنیا کے مسلمانوں نے ان میں دیکھیں:
- امیر المؤمنین رحمہ اللہ نے اکیلے بہت سے لوگوں کو اس پر قائل کیا کہ اسلامی نظام کی ضرورت ہے اور شر و فساد کے مرتکب ان افراد کے خلاف بغاوت حق ہے جنہوں نے مسلمانوں کو تنظیمی جنگوں میں پھنسایا۔ یعنی کہا جا سکتا ہے کہ ملا صاحب رحمہ اللہ کی علمی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت دعوت و تبلیغ میں مہارت تھی۔
- خلافت عثمانیہ کے بعد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلامی نظام کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا۔
- وہ شخصیت تھے جنہیں ثالث عمر کا لقب حاصل ہوا۔
- انہوں نے عرب و عجم کے مجاہدین کو اپنے ساتھ جمع کیا۔
- مجاہدین کے درمیان اتحاد و اتفاق ایسے قائم کیا کہ وہ آج تک متحد ہیں۔
- مہمان نوازی میں تاریخ میں ایک مثال بن گئے۔
- دنیا کے تمام کافر ملکوں میں اپنا یعنی مسلمانوں کا رعب پھر سے زندہ کر دیا۔
- ثالث عمر، مجدد اور اس طرح کے دیگر القابات بہت قلیل وقت میں حاصل کیے۔
- خلافت عثمانیہ کے بعد واحد شخص تھے جنہیں علمائے حق کی جانب سے امیر المؤمنین کا لقب دیا گیا۔
- پوری دنیا میں جہادی تصور پھر سے زندہ کر دیا۔
- جلال الدین حقانی، اسامہ بن لادن رحمہم اللہ اور ان جیسی دیگر عظیم جہادی شخصیات کے امیر رہے۔
اس طرح کی دیگر بہت سی خصوصیات ہیں جو لکھنے اور پڑھنے کے لائق ہیں۔ آپ قاری عبد الستار سعید صاحب کی کتاب "ثالث عمر” پڑھیں، ان شاء اللہ عمر ثالث رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کی حقانیت آپ پر واضح ہو جائے گی۔
اس بات کا ذکر بھی اہم ہے کہ بڑے ملا صاحب نے کبھی بھی اسلام کے مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ جو بھی کیا اللہ تعالیٰ کی رضا اور اسلام و مسلمانوں کی بھلائی کی خاطر ہی کیا۔
ملا صاحب رحمہ اللہ نے خود کو اسلام کی خدمت کے لیے ایسے وقف کر دیا تھا کہ آج تک انہیں اچھے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہم سب امیر المؤمنین رحمہ اللہ کے مقروض ہیں کیونکہ وہی تھے جنہوں نے ہمیں اسلامی نظام کے قیام کی دہلیز تک پہنچایا۔
ان کی روح سلامت رہے اور ان کی یاد ہمیشہ تازہ رہے۔