حالیہ عرصے میں دیکھا جارہا ہے کہ داعشی گروہ سے ان کے راہنما اور اعلی سطح کے کمانڈر اپنی راہیں جدا کر رہے ہیں۔
حال ہی میں ان سے علیحدہ ہونے والے ایک عالم دین شیخ عبد الرحیم "مسلم دوست” نے ادارہ المرصاد کو ایک خصوصی انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں مسلم دوست صاحب نے ان میں شامل ہونے پر اپنی پشیمانی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ گروہ خلاف شریعت کاموں میں ملوث ہے، مسلمانوں کی جان ومال کو اپنے لیے حلال سمجھتا ہے۔
شیخ مسلم دوست صاحب کے بقول” میں اس گروہ سے اس لیے علیحدہ ہوا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، یہ دین سے منحرف اور انٹیلی جنس ایجنسیز کا گروہ ہے جسے کفری ممالک چلاتے اور ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں، انہی کی حکم پر علماء کرم، عوامی اور اسلامی مراکز کو نشانہ بناتے ہیں۔
شیخ مسلم اپنی پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا ان سے جا ملنا میری غلطی تھی، اللہ تعلی نے جلد ہی مجھے شرح صدر عطا کیا، اور مجھے اس ظالم گروہ سے نکال باہر کیا، اس پر میں اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہوں۔
شیخ صاحب افغانستان کے عوام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ داعش کو پہچانیں، یہ اللہ اور مسلمانوں کے دشمن ہیں، ان کا مقابلہ کریں، امکان بھر کوشش کریں کہ روئے زمین سے ان کا صفایا ہو جائے، ان کے کہنے پر مسلمانوں کا قتل کرکے اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن نہ بنائیں۔
آپ حضرات کو بخوبی علم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کس نے شہید کیا؟
کیا علی رضی اللہ عنہ کو کسی قاتل، شرابی یا رشوت خور نے قتل کیا؟
نہیں! بالکل نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قاتل عبدلارحمن بن ملجم ابتدا میں ایک نیک صالح اور قرآن کا حافظ ومعلم تھا۔
مصر کے گورنر عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ امیرالمؤمنین! ہمارے پاس کوئی قرآن کا ماہر قاری بھیجیں جو مصر کے لوگوں کو قرآن سکھائے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا:
"ارسلت الیک رجلا ھو عبد الرحمن بن ملجم من اھل القرآن، آثرتک به علی نفسي” الخ
میں آپ کی طرف عبدالرحمن بن ملجم کو جو قرآن کا قاری ہے اور میں آپ کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہوئے اسے روانہ کررہا ہوں، جب یہ آپ کے پاس پہنچے تو اس کے لیے ایک جگہ مقرر کرلینا جہاں وہ لوگوں کو قرآن سکھائے، ان کی عزت واحترام میں کمی نہ کرنا۔
مگر عبدالرحمن بن ملجم کے پاس قرآن کا صحیح علم وفہم نہ تھا، جس کی وجہ سے وہ خوارج کے افکار میں پھنس گیا۔
یہی عبدالرحمن بن ملجم اٹھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کرڈالا، پھر جب اسے قصاص لینے کے لیے لایا گیا تو اس نے جلاد سے کہاکہ مجھے یک دم قتل نہ کرو، میرے ایک ایک عضو کو کاٹتے جاؤ تاکہ میں اللہ کی راہ میں اپنے اعضاء کی قربانی دیکھ سکوں۔
آپ دیکھیں کہ اس شخص کو اپنے رب سے کتنی محبت تھی، وہ چاہ رہا ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے، کس لیے؟
کیونکہ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ہے، اس کی سوچ یہ تھی کہ ان کا قتل حق اور بڑے اجر کا کام تھا۔
اہل السنۃ والجماعۃ کے ائمہ کرام کی یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ کہنا اہم نہیں کہ میں اللہ سے محبت کرتا ہوں اور عمل اپنی خواہشات کے مطابق ہو، بلکہ اصل بات یہ ہے ان اعمال کی طرف متوجہ ہوا جائے جن سے اللہ راضی ہو۔
آپ اگر یہ کہتے ہوں کہ میں اللہ سے محبت کرتا ہوں، اللہ کے عشق میں ٹکڑے ٹکڑے ہونا چاہتا ہوں لیکن اس محبت کے لیے راستہ و طریقہ غلط ہو تو آپ گمراہ ہیں، آپ کے لیے ضروری ہے کہ ان اعمال کی جستجو میں رہیں جو اللہ کو پسند ہوں۔