اتوار کے روز، ہیئة تحریر الشام کی قیادت میں شام کے جہادی گروپوں نے وسیع کامیاب آپریشنز کے نتیجے میں شام میں بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنے اور دارالحکومت دمشق پر قبضے کا اعلان کیا۔
شام کے جہادی گروپوں کی یہ کامیابی دنیا بھر کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑا گئی ہے اور اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ کابل اور خوست کے ساتھ ساتھ افغانستان کے کئی دوسرے شہروں میں بھی عوام شام کی فتح کا جشن منانے کے لیے گھروں سے باہر نکلے اور تکبیر کے نعرے بلند کیے۔
اگرچہ شام کے انقلاب کی کامیابی دنیا کے بیشتر مسلمانوں کے لیے خوشی کا پیغام ہے، لیکن مسلمان نما داعشی خوارج بشار کے حامیوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں اور مجاہدین، ان کے آپریشن ردع العدوان کے خلاف اور انہیں بدنام کرنے کے لیے پہلے دن سے ہی اپنی توانائیاں صَرف کر رہے ہیں۔
داعشی خوارج ہمیشہ کی طرح شام کے جہادی گروپوں پر مختلف الزامات لگاتے آرہے ہیں، کبھی انہیں مشرقی بلاک کا غلام کہتے ہیں اور کبھی مغرب کا، اسی دوران انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں اپنے فتنہ کی آگ دوبارہ بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ تازہ رپورٹوں کے مطابق داعشی خوارج نے گزشتہ تین دنوں میں شام کے کُرد علاقوں میں، جہاں انہوں نے صحرا میں چھپنے کی جگہیں بنا رکھی ہیں، تقریباً دس حملے کیے ہیں۔
شام کے جہادی گروپوں کو اپنے انقلاب کے نتائج حاصل کرنے کے لیے مزید محنت اور کوشش کی ضرورت ہے، لیکن لگتا ہے کہ داعش جیسے مسلمانوں کے دشمن، آزادی اور اسلامی نظام کے تحت پرامن زندگی گذارنے کے بجائے تخریب کاری اور فساد سے باز نہیں آئیں گے۔