تاجکستان وہ سرزمین ہے جو ایک طویل مدت سے ایک افسوسناک قسمت اور بری صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔
وہ حالت جس نے کبھی ہمارے ملک افغانستان کو متاثر کیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حق پرست مجاہدین کے پاکیزہ جہاد سے اس وقت کے تمام مذموم منصوبے ناکام بنا دیے گئے۔
آج اگر ہم توحید کے جھنڈے تلے، اسلامی نظام اور شرعی احکام کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں تو یہ بہت سی قربانیوں کا نتیجہ ہے، کہ جو جنگ کے میدانوں میں دی گئیں، یہاں تک کہ نتیجے میں اس قوم کو اسلام دشمنوں کے فکری استعمار سے نجات دلانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔
لیکن بدقسمتی سے تاجکستان میں صورتحال مختلف ہے، اس ملک کی مظلوم عوام ،ہر روز کفر و سیکولرازم کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے اور ان لوگوں کو ان کے کرائے کے قاتلوں کے چنگل سے بچانے کے لیے کوئی تحریک موجود نہیں۔
۱۹۹۲ء میں امام علی رحمانوف کے برسر اقتدار آنے سے لے کر آج تک تاجکستان کی عوام کے اسلام اور دین کے خلاف شدید جدوجہد جاری ہے اور دینی شعائر کو ختم کرنے کے لیے سخت کوشش کی جا رہی ہے۔ حالیہ عرصے میں درج ذیل چند واقعات قابل ذکر ہیں:
۱۔ تاجکستان میں تقریبا دو ہزار مساجد کی بندش
۲۔ تعلیمی نصاب سے اسلامی تعلیم کا خاتمہ
۳۔ سیکولرازم کے نظام کے مطابق تعلیم
۴۔ ۱۸ سال سے کم عمر نوجوانوں کو اپنا مذہب اختیار کرنے پر پابندی
۵۔ ۱۸ سال سے کم عمر کے لوگوں کو مسجد جانے پر پابندی
۶۔ رمضان کے مقدس مہینے میں کسانوں کے روزہ رکھنے پر پابندی
۷۔ ۳۵ سال سے کم عمر افراد کے لیے حج کرنے پر پابندی
۸۔ عید پر بچوں کو سیر و تفریح کے لیے جانے اور عید منانے پر پابندی جو بچوں میں عام ہے۔
۹۔ ۱۸ سال سے کم عمر لڑکیوں پر حجاب کے ساتھ سکول داخلے پر پابندی۔
۱۰۔ غیر ملکی لباس کے خلاف جدوجہد کے نام پر اسلامی لباس پر پابندی۔
جی ہاں! یہ جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ تاجکستان کے حکمرانوں کی دین مخالف سرگرمیوں کا ایک حصہ ہے، اور اس کا سرغنہ امام علی رحمانوف ہے اور بلا شبہ وہ سب کچھ جو پس پردہ ہو رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ اور زہریلا ہے۔
یہ وہ کام ہیں جو عصر حاضر کے خوارج کی صفوں میں مخلص لیکن ناسمجھ اور سادہ لوح نوجوانوں کو شامل کرنے میں سب سے بڑی وجہ ہیں۔ خوارج اس قوم کی درد ناک حالت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے زہریلے پراپیگنڈے اور جھوٹ سے کام لے رہی ہے۔
ان نوجوانوں کو اپنے آقا کے انٹیلی جنس اہداف حاصل کرنے کے لیے قربانگاہ پر لایا جا رہا ہے۔
ان اسلام مخالف قوانین کے نفاذ نے ، بالخصوص حجاب کی ممانعت کے قانون نے، جو حالیہ عرصے میں منظور کیا گیا، تاجکستان کے اندر اور باہر سے بہت سے تبصروں کو جنم دیا ہے اور انہیں امت مسلمہ کے علماء و مشائخ کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے تاجکستان کی حکومت کی قوت یہ ہے کہ اس کے ساتھ شیاطین ہیں، جو فرشتوں کے لباس میں گھومتے ہیں اور خود کو عالم کہتے ہیں اور اس حکومت اور اس کے قائدین کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں، حق کو باطل اور باطل کو حق کہتے ہیں۔
یہ انسان نما شیاطین دین کے نام پر دین کے خلاف کام کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں افغانستان کے لوگ درباری علماء کے نام سے جانتے ہیں، جنہوں نے خود کو بیچ ڈالا، جنہوں نے قبضے کے دوران اپنے علم اور دین کو دنیا کے قلیل مال کے بدلے میں بیچ ڈالا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ممبر و محراب کے ساتھ خیانت کی۔
لیکن جس طرح مغربی کرائے کے فوجی اس دنیا میں ذلت کا مزہ چکھ چکے ہیں اور اب انتہائی کم تر درجے کے انسانی حقوق سے بھی محروم ہو کر کوئی کسی ملک اور کوئی کسی ملک میں ہے، ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ تاجکستان کے بہادر نوجوان اپنے افغان بھائیوں کی مقدس جدوجہد سے سبق لیں گے اور میدان عمل میں اتر آئیں گے، شیطان اور اس کے لشکر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے، اور تاجکستان سے ان کے ناپاک قدم دور کر دیں گے۔
ان شاء اللہ