امام علی رحمان کی قیادت میں تاجکستان کی آمرانہ کمیونسٹ حکومت نے متعدد قوانین بنا کر ملک میں اسلام دشمنی کی نئی لہر شروع کر دی ہے۔
اسلام دشمن اقدامات کے حالیہ معاملے میں تاجکستان کی قومی کونسل نے عید منانے اور حجاب پہننے پر پابندی کے منصوبے کی منظوری دی ہے۔
اس منصوبے کے مطابق اب حجاب پہنے والی خواتین اس ملک کے ہسپتالوں، اسکولوں یا کسی سرکاری دفتر میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتیں۔
ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ تاجکستان کی آمرانہ حکومت نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات کیے ہیں۔ تاجکستان میں اسلام مخالف کاموں کی تاریخ ۲۰۱۰ء سے پوری طاقت اور شدت سے جاری ہے۔
اس ملک کی سیکولر حکومت ہر سال دینی مناسک و مراسم کے حوالے سے اسی طرح کے منصوبے منظور کر کے خود کو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے خلاف کرتی ہے اور اس ملک کی مسلم قوم کو، جو اکثریت میں ہیں، دینی مراسم کی ادائیگی میں چیلنج کر تی ہے۔
جبکہ انسانی حقوق کی کسی تنظیم یا آزادیوں کے دفاع کے کسی ادارے نے اس معاملے پر کوئی مؤقف بیان نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی غیر ملکی میڈیا نے اس کی کوریج کی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ داعشی خوارج جن کی اکثریت تاجکستانی شہری ہیں، اور اسلام کے نام پر دیگر اسلامی ممالک میں فتنہ اور فساد مچا رہے ہیں وہ اس ملک کی آمرانہ حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی کم از کم مذمت تک بھی کیوں نہیں کرتے؟
واضح بات ہے کہ داعشی خوارج اور تاجکستان کی اسلام دشمن حکومت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور پہلے سے طے شدہ مشترکہ اور خصوصی حکمت عملیوں کے فریم ورک میں اسلام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
جب دنیا بھر میں مسلمانوں کی تحریکات غصب کیے گئے حقوق دوبارہ حاصل کرنے کے لیے پورے زور و قوت کے ساتھ دن بدن پھیل رہی ہیں اور بظاہر مضبوط یا مغرب سے وابستہ ریاستیں بڑی حد تک منہدم ہو چکی ہیں یا ہونے والی ہیں اور پھر سے اسلامی عظمت و غیرت لوٹنے کے قریب ہے، یہ تعجب کی بات ہے کہ عالم اسلام کے قلب میں اور اس خطے میں جو اسلامی فخر و عزت کا مرکز ہے، عوام کی خواہشات و جذبات سے متصادم، سوویت کمیونسٹ حکومت کے دور کت چند زندہ بچ جانے والے رہنما، جو کہ بہت بری طرح تمام اقوام، لوگوں، حکومتوں اور قوانین کے محکوم ہیں، اسلام کو کمزور اور اپنی قدیم قوم کی آزادی، عزت اور وقات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
تاجکستان کے بہادر اور قابل فخر لوگ جو عظیم اسلامی سزمین کے ایک چھوٹے سے خطے میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی ثقافتی و دینی برادری کے رکن ہیں، دیندار لوگ ہیں اور اپنی آزادی اور اسلامی شناخت کے بارے میں پر عزم اور پر اعتماد ہیں لیکن سوویت دور کی بقایہ جات کرپٹ اور غاصب حکمران اسلام کی عظیم اور قابل فخفر قوم کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔
یہ چند لوگ اس چھوٹے سے علاقے میں، جو کہ حقیقت میں قدیم ثقافتی اقدار پر مشتل ہے، اسلام کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور ملک میں بسنے والے مسلمانوں پر، جو کہ کل آبادی کا ۹۶ فیصد حصہ ہیں، حجاب پہننے، اذان دینے، داڑھی بڑھانے اور سب سے عجیب یہ کہ بچوں کے محمد اور عبد اللہ جیسے دینی اور بہترین نام تک رکھنے پر پابندی اور اس طرح کے دیگر قوانین نافذ کر کے انہیں دباؤ کا شکار کر رہے ہیں اور اس عظیم اسلامی سرزمین اور اسلامی برادری کے ایک جزو میں اسلامی تشخص کو پامال کرنے کے در پے ہیں۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات نہ صرف تاجکستان کی عظیم اور برادر قوم کی توہین ہیں، بلکہ دنیا کے تام مسلمانوں کی بھی توہین ہیں۔
مزید برآں مذکورہ بالا اقدامات جنہیں مسلمان قوم کے خلاف سخت ترین اقدامات کہا جا سکتا ہے، خطے میں عدم استحکام کا باعث بھی ہیں۔
اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ اسلامی حکومتیں اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم تاجکستان کی حکومت کے اسلام دشمن منصوبوں کی مذمت کرے گی اور اس ملک کے حکمرانوں کو خبردار کرے گی اور ان کو روکنے کے لیے ہر قسم کا دباؤ استعمال کرے گی۔