یقینا تاجکستان کی موجودہ حکومت کو داعشی خوارج کی اصل پناہگاہ قرار دیا جا سکتا ہے؛ یہ ایسا ملک ہے جو مغربی ممالک کی طرح اس نفرت انگیز گروہ کی حمایت کرکے اسے ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے تاکہ اپنے ناجائز مفادات کا تحفظ کر سکے۔
افغانستان میں مارے جانے والے خوارج کی شہریت اور تفصیلات اور اُن افراد کے اعترافات، جو زندہ گرفتار ہوئے ہیں، واضح طور پر تاجکستان کی گہری اور وسیع حمایت کو ظاہر کرتے ہیں؛ ایسی حمایت جس کا مقصد ہر سطح پر داعش کی پشت پناہی کرنا ہے۔
تاجکستان کا شمار اُن نام نہاد اسلامی ممالک میں ہوتا ہے جو اسلام اور اس کے مقدسات کے خلاف سب سے سخت مؤقف رکھتے ہیں؛ ایسا ملک جس کے حکام نے اپنا پورا زور اسلامی شعائر کے خلاف جنگ پر مرکوز کیا ہوا ہے۔
اس کے برعکس، وہ خوارج جو اسی ملک سے اُٹھے ہیں، انہیں تاجکستان کے اندر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی؛ لہٰذا وہ اپنے ہمسایہ ممالک، خاص طور پر افغانستان کا رخ کرتے ہیں تاکہ دشمنانِ اسلام کے مفادات کی تکمیل کے لیے تباہی، فتنہانگیزی اور دہشت گردی کو ہوا دے سکیں۔
جب سے افغانستان میں امارتِ اسلامی برسرِاقتدار آئی ہے، سب پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ داعش کی تخریبی سرگرمیوں کو بڑی حد تک کچل دیا گیا ہے اور اس کے بیشتر کلیدی افراد یا تو ہلاک کر دیے گئے ہیں یا زندہ گرفتار ہو چکے ہیں۔
اب جب کہ داعش کا اثر و رسوخ کم ہو چکا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ تاجکستان کی حکومت نے ایک نیا زہریلا منصوبہ ہاتھ میں لیا ہے؛ ایسا منصوبہ جس کے ذریعے وہ نادان تاجک نوجوانوں کو داعش کی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دے اور ان کے لیے راستے ہموار کرے۔
تازہ ترین اقدام جو اٹھایا گیا، وہ یہ کہ تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے ایک ایسا قانون منظور کیا ہے، جس کے مطابق اگر کوئی شخص سوشل میڈیا پر ان پوسٹوں کو لایک یا ان پر تبصرہ کرے جنہیں حکومت ’’انتہاپسند‘‘ یا ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیتی ہے، تو اب یہ عمل جرم نہیں سمجھا جائے گا۔
یہ صورتحال اُس وقت مزید حیران کن بن جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ۱۵۰۰ سے زائد افراد محض اسی قسم کی سرگرمیوں کی بنیاد پر قید کیے جا چکے ہیں اور بعض کو تو صرف تنقیدی تحریروں یا ویڈیوز کو لایک کرنے یا تبصرہ کرنے پر سخت سزائیں دی گئی ہیں۔
ایسے ملک کی جانب سے، جو شعائرِ اسلام کے خلاف سخت ترین رویہ رکھتا ہے، اس قانون کی اچانک منسوخی ہر باشعور فرد کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا کرتی ہے: کیا یہ واقعی کوئی مثبت قدم ہے یا یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے تاکہ داعش کے لیے مجازی میدان میں تبلیغ کا دروازہ کھول دیا جائے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ عوامی آزادیوں کے تحفظ کے لیے نہیں، بلکہ اُس خطرناک منصوبے کا حصہ ہے جسے تاجکستان کی حکومت نے خطے میں داعش کی نرم پشت پناہی کے لیے تیار کیا ہے۔
اب جبکہ امارتِ اسلامی نے افغانستان میں داعش کی جڑیں کاٹ دی ہیں اور امن قائم کیا ہے، خوارج ایک بار پھر کوشش کر رہے ہیں کہ تاجکستان کی حکومت کی بالواسطہ حمایت اور مجازی فضا کے ذریعے نادان تاجک نوجوانوں کے اذہان کو مسخ کریں اور انہیں اپنی صفوں کا حصہ بنائیں۔