امت مسلمہ کے خلاف کفر کی عقیدے کی کشمکش آج کی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے آج تک جاری ہے اور قیامت تک اسلام اور کفر کے درمیان یہ عداوت نور و ظلمت کی عداوت ہے، نور اسلام اور ظلمت کفر۔
پر نور راہوں کے راہیوں نے ہمیشہ اپنی عداوت کو معیار کے مطابق رکھا ہے اور ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ظلمت کے راہیوں کو نہ صرف شکست دیں بلکہ ہمیشہ یہ بھی چاہا کہ انہیں اپنا بنا کر اسلام کا مقدس لباس پہنا دیں تاکہ ان کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی لیکن ظلمتِ کفر کے راہی بہت سے طریقوں سے عداوت نبھاتے ہیں۔
کفر کی ساری کوششیں اسلام اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے ہیں، ان کوششوں کے آغاز میں ہی انہیں مسلمانوں میں سے کوئی ایسا بھی مل ہی جاتا ہے جو اسلام کو کفر سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔
تاریخ کی کتب میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کیسے کفر کے حامی مسلمانوں نے امت مسلمہ کی کامیابیوں کو خاک میں ملا دیا۔
اگرچہ خلافت اسلامیہ کا وقت گزرے بہت زمانہ ہوا اور یہ داستانیں اب لوگوں کو صرف بحث کا موضوع نظر آتی ہیں لیکن در حقیقت یہ بدبختی آج بھی جاری ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ طویل جدوجہد کے نتیجے میں افغانستان میں ایک شرعی نظام حاکم ہوا، اس حاکم شرعی نظام کے خلاف کفر کے ساتھ اپنے ہی بہت سے مسلمانوں نے محاذ بنا رکھا ہے۔ ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کیسے امارت اسلامیہ کو نیچا دکھا کر کفر کو خوش کریں۔ حال ہی میں امارت اسلامیہ کے وزیر خارجہ محترم امیر خان متقی صاحب ایک بیان دیا۔
متقی صاحب نے جو باتیں کیں ہیں، المرصاد بہت پہلے ہی اپنے ذرائع کے توسط سے یہ باتیں دقیق معلومات اور شواہد کے ساتھ نشر کر چکا ہے، یعنی متقی صاحب کی ان باتوں نے المرصاد کے دعووں پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ المرصاد نے بہت پہلے کہا تھا کہ داعش کی فنڈنگ میں پاکستان، تاجکستان اور دیگر ممالک کا بڑا ہاتھ ہے اور اس کے ساتھ کچھ شواہد بھی پیش کیے تھے۔ یہاں تک کہ تاجکستان، پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک کے داعشی شہری گرفتار ہو گئے اور ان کی زبان سے کیے گئے اقرار نے افغانستان کے ان پڑوسی ممالک کی منافقت کو ظاہر کر دیا۔ ایران بھی داعشیوں کے لیے زمین سازی کرتا ہے، لیکن ایسی عیاری سے کہ کوئی جان نہ سکے، لیکن وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ ایران اسرائیلی منصوبے (داعشی خوارج کی فنڈنگ) کو پورے زور و شور سے آگے بڑھا رہا ہے۔
متقی صاحب نے سیاسی مصلحت کے پیش نظر ان تینیوں پڑوسی ممالک کا نام نہیں لیا، تاکہ وہ بھی سمجھ جائیں اور اس حوالے سے دوبارہ امارت اسلامیہ کے ذکر سے گریز کریں اور اس کی بجائے وقت کے تقاضے کے مطابق عملی اقدامات اٹھائیں۔ متقی صاحب نے "عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے” کے مصداق صرف اتنا ہی کافی سمجھا لیکن ممکن ہے امارت اسلامیہ نے ان منافق پڑوسی ممالک کے مقابلے میں کچھ عملی اقدامات بھی کیے ہوں۔
وزیر خارجہ کے بیان کے مطابق یہ تین پڑوسی ممالک بالترتیب ایران، تاجکستان اور پاکستان ہیں، یہ ممالک آغاز سے آج تک اپنی منافقت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایران نے امت مسلمہ کے سینے میں خنجر گھونپا، تاجکستان اس کے ساتھ کھڑا ہے اور پاکستان نے پھر امت مسلمہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے۔ متقی صاحب کے بیان کے مطابق ایک ملک کی جانب سے افرادی قوت تیار کی جاتی ہے (تاجکستان)، دوسرا راستہ فراہم کرتا ہے (یہ دو ممالک ترکی اور ایران ہو سکتے ہیں)، اور تیسرا ملک مراکز، نظریاتی و جسمانی تربیت، فنڈنگ اور پلاننگ میں تعاون فراہم کرتا ہے اور یہ واضح طور پر پاکستان ہے۔
المرصاد نے بھی اس بات کا تذکرہ اپنی ویب سائٹ پر کیا تھا، المرصاد نے لکھا: "تاجکستانی شہری خراسانی خوارج کے لیے ایندھن کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں، افغانستان میں تقریباً تمام ہی خودکش حملوں میں یہ افراد استعمال ہوئے اور افغانستان کے علاوہ دیگر دنیا میں بھی خوارج استعمال کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح باہر سے افغانستان آنے والے داعشی ترکی اور ایران کے راستے سے آتے ہیں، پاکستان بھی حالیہ عرصے میں داعشی خوارج کے لیے پلاننگ، اور ٹریننگ کا مرکز بن چکا ہے، جہاں خراسانی خوارج کی قیادت کی باقیات نے اپنے گروہ کی افغانستان میں شکست کے بعد پناہ لے رکھی ہے۔ اب وہاں اپنے جنگجوؤں کی ٹریننگ کرتے ہیں اور وہاں سے افغانستان میں عام لوگوں، عسکری اور شہری اہداف اور مذہبی مقامات پر حملوں کے احکامات جاری کرتے ہیں۔”
داعشی خوارج کے بطلان کے لیے ان جمہوریتی اور کفر کی پالی حکومتوں کا افشاء شدہ تعاون ہی دلیل کے لیے کافی ہے۔
فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ