داعش کو امریکہ کا آخری ہتھیار قرار دیا جا سکتا ہے جو اسے امارت اسلامیہ کی روز بروز ترقیوں اور کامیابیوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔
جب طاغوت امریکہ کو یقین ہوا کہ جمہوریہ کے کرائے کے فوجی امارت اسلامیہ کے خلاف مزید کھڑے نہیں رہ سکتے اور کابل انتظامیہ کی نااہلی پہلے سے زیادہ عیاں ہو گئی تو اس نے نئی سازش کے تانے بنے۔
اسی لیے اس نے داعش خراسان کو تشکیل دیا اور اس ناسور کو پروان چڑھانے کے لیے ہر طرح کی منصوبہ بندی کی، تاکہ وہ اس نئی طاقت کو مجاہدین کے خلاف بطورِ حربہ اور جمہوریت کے فرسودہ نظام اور اس کی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے استعمال کر سکے۔
لیکن اللہ کا شکر ہے! جیسا کہ جمہوریت کے غلاموں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، اسی طرح خوارجی مکتب فکر کے دھوکے میں آئے لوگ اسلام کے اصل فرزندوں سے لڑنے کے قابل نہ رہے اور ان کی جانب سے لگائے گئے اندازوں و تخمینوں سے پہلے ہی شکست کھا گئے۔
افغانستان کی فتح کے بعد، اس حقیقت کے باوجود کہ داعش خراسان کو مکمل طور پر شکست ہوگئی تھی اور افغانستان کی سرزمین پر ایک ٹکڑا بھی نہیں بچا تھا جہاں ان کا وجود باقی ہو، لیکن پھر بھی دنیائے کفر اور اس کا سرغنہ امریکہ اپنے نااہل لے پالک کے لیے پروپیگنڈوں سے باز نہیں آیا، وہ ہر مجلس اور تقریب میں دنیا کو اس گروہ کے خطرے سے ڈراتا رہتا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ داعش خراسان اپنی دیگرنام نہاد شاخوں کے مقابلے میں بہت کمزور بلکہ ختم ہوچکی اور ان کی دیگر شاخیں افغانستان کی بنسبت عالم کفر میں اب بھی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں اسلامی نظام کے قیام کے بعد سے داعش کے ساتھ ساتھ باغیوں اور جمہوریہ کی باقیات بعض اوقات تخریبی کاروائیاں کرتی ہیں جو خود ان کی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ان دونوں گروہوں کے درمیان اتحاد کی خبر پھیلی تھی، ایک ایسا اتحاد جس کی توقع اپنے مختلف اور متضاد نظریات کی وجہ سے انہیں خود بھی نہیں تھی لیکن اپنے آقاؤں کے اتحاد اور ان کے حکم کی وجہ سے ان دونوں گروہوں کے فریب خوردہ لوگ تمام تر اختلافات کے باوجود اسلامی نظام کے خلاف کھڑے ہو گئے۔
اگرچہ اس اتحاد کے ذریعے انہیں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے لیے کفار کا منصوبہ کامیاب ہوا لیکن پھر بھی وہ ایک دوسرے کے مفادات کے لیے ناکام کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں باغی جبہے نے امریکہ کے حکم پراپنے اتحادی داعش کی پروپیگنڈہ مہم کو اپنے سر لے لیا اور ایک اعلامیے میں اس گروپ کی پیش رفت کو ظاہر کرتے ہوئے اورافغانستان کی عوام میں خوف اور دہشت پھیلانے کے لیے پروپیگنڈا کیا کہ آئندہ چند دنوں میں سفارتی مقامات اور مختلف ممالک کے نمائندہ دفاتر پر حملے ہوں گے۔
اس دعوے میں پروپیگنڈے کے علاوہ کوئی صداقت نہیں ہے اور پورے اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اب تمام سفارتی مقامات پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں اور کسی شرپسند کو تخریبی سرگرمیاں کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔