گزشتہ بدھ ۲۴ اسد (بمطابق ۱۴ اگست) امارت اسلامیہ کی فتح اور امریکی استعمار کی شکست کی تیسری برسی تھی جسے ملک کے تمام حصوں میں عوام اور حکومت کی جانب سے پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ افغانستان کی تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ حقیقی معنوں میں آزادی کا جشن منایا جائے، اس طرح کے ہم مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ہوں۔
پچھلے بیس سالوں میں ۲۸ اسد (۱۸ یا ۱۹ اگست) جو برطانویوں سے آزادی کا دن ہے، جمہوری حکومت کی جانب سے اس طرح سے منایا جاتا تھا کہ وہ خود آزادی سے آشنا نہ تھے۔ امریکی افواج کی موجودگی (حتیٰ کہ امریکی اتحاد میں برطانوی افواج کی بھی موجودگی) اور ان کی غلامی انہیں آزادی نظر آتی تھی اور وہ ساری قوم کو بھی ایسا ہی سمجھتے تھے کہ وہ بھی آزادی سے آگاہ نہیں۔ لیکن قوم حقیقی آزادی کے ابطال کو جانتی ہے، اور ان کے ساتھ آزادی کے حصول میں اس طرح کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی رہی جس طرح آج ان کے ساتھ اس جشن میں کھڑی ہے۔
امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے آزادی کا جشن منانے کا انداز انتہائی دلچسپ تھا۔ اس نے اپنی روحانی، مادی، سیاسی اور اخلاقی قوت کا مظاہرہ کیا۔ بگرام میں، دورِ استعمار میں جسے چھوٹا امریکہ (Little America) کہا جاتا تھا، ملٹری پریڈ کا اہتمام کیا گیا، جس میں مختلف فریقوں کے لیے بہت سے پیغام بھی تھے۔
۱۔ امریکہ کو پیغام
امریکہ میں انتخابی دوڑ جاری ہے۔ امیدوار اپنی انتخابی مہم اور قوم کو دھوکہ دینے کی خاطر، افغانستان میں اپنی شکست کا الزام ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ٹرمپ نے کہا کہ جو بائڈن نے بگرام چھوڑ دیا، اگر میں ہوتا تو کبھی نہ چھوڑتا۔ اس کے بقول اگر وہ اقتدار میں آیا تو طالبان کو بگرام حوالے کرنے کی شرط پر تسلیم کر لے گا۔ حالانکہ دوحہ میں قبضے کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط خود ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے تھے، اگر وہ یہ کام کر سکتا تھا تو تب کیوں نہ کیا؟
امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے جشنِ آزادی بگرام میں منائے جانے سے، امریکہ بالخصوص ٹرمپ کے شیطانی خوابوں کے شرمندۂ تعبیر ہونے کی امید ختم ہو گئی اور انہیں یہ پیغام بھی مل گیا کہ یہیں سے نکل کر تمہارے ٹینک اور طیارے موٹر سائیکل پر سوار طالبان کا بڑی بے بسی سے پیچھا کرتے تھے۔ بگرام اب اس ملک کے اصلی فرزندوں کے قبضے میں ہے، اسے دوبارہ حاصل کرنے کی امیدیں چھوڑ دو۔
۲۔ کٹھ پتلی انتظامیہ کو پیغام
یہ وہی بگرام ہے جہاں تمہارا باپ ٹرمپ سے ملنے کے لیے ارگ (صدارتی محل) سے گیا لیکن ٹرمپ نے اسے اپنے فوجیوں کی قطار میں ہی روک لیا۔ یہ وہی بگرام ہے جہاں تمہارے حکام امریکیوں کو سلامی پیش کرنے جاتے تھے لیکن آج وہاں طالبان، وہی جنہوں نے امریکہ کو شکست دی اور اسے ان سے چھین لیا، آزادی کا جشن منا رہے ہیں۔ تم لوگوں کو بھی اب امید چھوڑ دینی چاہیے ۔ امارت اسلامیہ افغانستان قومی اقدار کو اچھی طرح سمجھتی ہے، اس سرزمین کی اہمیت سے باخبر ہے۔ تم نے خود دیکھا کہ اس نے آزادی کے حصول کے لیے کس قدر بے مثال قربانیاں پیش کیں۔
۳۔ پڑوسی اور خطے کے ممالک کو پیغام
بگرام ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، ہم کسی کو اس پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم غیر ملکیوں کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ دنیا کے سفارت خانے قانونی اور اصولی طور پر قبول کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہاں عسکری موجودگی کو کبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ جان لو، کہ افغانستان پر قبضہ کرنے میں دوسروں کی مدد تمہیں تباہی کی طرف لے جائے گی۔ امید ہے کہ اس مؤقف کو سمجھو گے۔
خلاصہ یہ کہ طالبان بہت زیرک سیاست کر رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے یہ مفروضہ کہ مسلمان اور افغان سیاست اور حکومت نہیں کر سکتے، جھوٹا اور باطل ثابت ہو گیا۔ کبھی افغانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی کوششیں تھیں، آج افغان ایک عسکری قوت ہیں۔ دشمن کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ اس نے شکست کھائی ہے اور طالبان فتحیات ہوئے ہیں۔ اب وہ مزید اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔ افغان اور پوری امت مسلمہ متحد ہیں۔