جہاد دین اسلام کا ایک اہم اور محکم فریضہ ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ، روئے زمین پر اقامتِ دینِ مبین، نفاذِ شریعت محمدی، اسلامی سرزمین سے کفر کے استعمار و قبضے کے بالمقابل اور اپنی آزادی کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے۔
بے ضمیر، استعمار اور کفار کی غلامی پر رضامند لوگوں کے لیے یہ عمل بہت شاق ہے، مگر وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان سے عزیز رکھتے ہیں، اپنی زندگیوں کو اسلامی احکامات کی روشنی میں گذارنا چاہتے ہیں، فحاشی و بے دینی سے بیزار ہیں اور ایک آزاد زندگی گزارنے کے خواہشمند ہیں، ایسے لوگوں کے لیے جہاد تمام عبادات میں سب سے زیادہ محبوب اور آسان عبادت ہے۔
چونکہ جہاد کے ذریعہ دین اسلام کا دامنِ عافیت وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور دنیا کے کونے کونے تک اس کا پیغام پہنچتا ہے اس لیے دشمنان اسلام بزعم خود اس مقدس عبادت کا راستہ روکتے ہیں،مجاہدین کو بھی اس مقدس فریضے کی ادائیگی سے روکتے تہیں، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لفظ جہاد کو دہشتگردی اور قتل عام کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاد کا فریضہ اللہ رب العالمین کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر ہی سر انجام دیاجاتا ہے، وہ اللہ جس نے تمام کائنات اور اس میں موجود مخلوقات کو پیدا کیا۔
دنیائے کفر نے جہاد کے مقابلے میں اپنا سارا زور آزما لیا، اسلامی ممالک پر حملہ آور ہوئے، استعمار کی جڑوں کو مضبوط کیا، مسلمانان عالم کا اجتماعی شکل میں قتلِ عام کیا، اسلامی دنیا کو بارہا واقعات غم و اندوہ کا سامنا کرنا پڑا، ان تمام کوششوں اور مظالم کے باوجود جہاد کو روکنے میں ناکام رہے، جب بھی ایک مسلم نوجوان شہید ہوتا مزید دس نوجوان اس کی جگہ لے لیتے، یہ حالات کافی عرصے تک اسی طرح چلتے رہے اور بالآخر دنیائے کفر کو شکست فاش تسلیم کرنی پڑی اور میدان جنگ کے بجائے مذاکرات کی میز پر آنے کی منتیں کرنے لگے۔
دنیائے کفر نے شکست کے بعد ایسے منصوبے پر کام شروع کردیا جس میں در پردہ بیٹھ کر اسلام اور جہاد کو بدنام کریں، اس کے لیے انہوں نے اسلام اور خلافت کے نام پر ایک پراکسی گروپ تشکیل دیا جو جہاد سے مسلمانوں کو متنفر کرنے کا ذریعہ بنا اور اسلام کے نام پر ایک بدنما داغ کی شکل میں نمودار ہوا۔
ان گروپس میں سے ایک داعش جو اسلام اور اسلام کا نعرہ بلند کرکے عسکری میدان میں آیا جبکہ دوسرا حزب التحریر جو قیام خلافت کے نام پر نوجوانوں کو عملی جہاد سے بٹھا کر ہوائی خلافت اور نظام اسلامی کے کھوکھلے اور بے بنیاد دعوے کرکے عوام کو اصلی ہدف سے دور رکھنے میں ایک حد تک کامیاب ہوئے۔ داعش نے اسلام کی بقاء کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا اور دلیل یہ دی کہ ہمارے سوا تمام مسلمان اپنے منہج کو بھول کر صرف نام کے مسلمان ہیں، داعش اپنے آپ کو تمام امت سے بڑھ کر پکا مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اسلام کی جڑیں کاٹنے میں سب سے پہلی صف میں کھڑے ہیں۔
حزب التحریر عملی جہاد کو چھوڑ کر عدم تشدد کے راستے پر چل پڑے تاکہ اپنے حقوق منت و سماجت کرکے حاصل کریں، بقائے اسلام کے لیے جنگ کے بجائے عالم کفر سے اپنی سرزمین، دین و ملک کی آزادی کی بھیک مانگیں، حزب التحریر نے ایسی مکاری سے جہادی احکام میں تحریف کی کہ محاذوں پر موجود مجاہدین ان کی باتوں میں آکر جنگ چھوڑ بیٹھے اور جہاد جیسے مقدس فریضے سے دستبردار ہوگئے۔