سلطان محمد نے اپنے والد کی زندگی میں ہی کئی امور انجام دیے اور بعض اوقات بازنطینی سلطنت کے خلاف ہونے والی جنگوں میں بھی حصہ لیا۔ وہ اُن کوششوں سے باخبر تھا جو سلطنتِ عثمانیہ کے حکمرانوں نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے کی تھیں، بلکہ وہ اُن اقدامات سے بھی واقف تھا جو مختلف اسلامی ادوار میں قسطنطنیہ کی فتح کے لیے کیے گئے تھے۔ چنانچہ جب وہ سن ۸۵۵ھ (مطابق ۱۴۵۱ء) میں تخت نشین ہوا تو قسطنطنیہ کی فتح کا عزم اس کے دل میں جاگزیں ہو چکا تھا۔
علمائے کرام کی تربیت نے اس کے دل میں اسلام اور ایمان کی محبت، اور قرآن و سنت پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے نفاذ سے دلی محبت رکھتا تھا۔ وہ پرہیزگار، علم دوست، علماء سے محبت کرنے والا اور کئی نیک صفات کا حامل شخص تھا۔ اس کا اعلیٰ دینی جذبہ دراصل اُس تربیت کا نتیجہ تھا جو اُسے بچپن میں دی گئی تھی، اور یہ تربیت اس کے والدین کی خصوصی توجہ اور پرورش کا ثمرہ تھی۔ جن علمی شخصیات نے اس کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا تھا، ان کے اثرات اس کی شخصیت پر نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔
سلطان محمد فاتح بچپن ہی سے علماء اور ربانی شخصیات سے متاثر تھا، خاص طور پر مشہور ربانی عالم احمد بن اسماعیل کورانی سے، جن کے علم اور فضل کا مکمل طور پر قائل تھا۔ احمد بن اسماعیل، سلطان مراد ثانی کے دور میں محمد فاتح کے استاد تھے۔ ان دنوں محمد فاتح مگنیزیا (مغنیسیا) کے گورنر تھے۔ اُس کے والد نے اس کی تعلیم کے لیے متعدد اساتذہ بھیجے، لیکن محمد فاتح کسی کی بات نہیں مانتا تھا اور ان اساتذہ سے ایک لفظ بھی نہیں سیکھتا تھا۔
سلطان مراد ثانی نے محسوس کیا کہ شہزادے کو ایک مدبر اور سخت مزاج استاد کی ضرورت ہے، تو لوگوں نے اُسے مولانا کورانی کے بارے میں بتایا۔ سلطان نے مولانا کورانی کو اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لیے مقرر کیا اور اُسے ایک چھڑی بھی دی، اور فرمایا: اگر شہزادہ تمہارا حکم نہ مانے، تو اسے اسی چھڑی سے مارنا۔
جب مولانا کورانی مگنیزیا پہنچے، تو وہ شہزادے کے کمرے میں داخل ہوئے، اُس وقت ان کے ساتھ وہ چھڑی بھی تھی۔ انہوں نے شہزادے کو مخاطب کر کے کہا: تمہارے والد نے مجھے تمہاری تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا ہے اور یہ چھڑی بھی مجھے تحفے میں دی ہے، تاکہ اگر تم میرا حکم نہ مانو تو تمہیں اس سے ماروں۔
یہ بات سنتے ہی سلطان محمد خان فاتح ہنس پڑا۔ اس پر مولانا کورانی نے فوراً چھڑی اُٹھائی اور اُسی مجلس میں اُسے مارا۔ اس پر شہزادہ گھبرا گیا اور تھوڑے ہی عرصے میں اُس نے قرآنِ کریم مکمل حفظ کر لیا۔