بایزید اور تیمور لنگ کے مابین جنگ:
تیمورلنگ ماوراء النہر کے ایک نیک خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ ۱۳۶۹ء میں وہ خراسان کے تخت پر بیٹھا، جس کا دارالحکومت سمرقند تھا، اور رفتہ رفتہ اس نے عالمِ اسلام پر اپنی حکمرانی قائم کی۔ اس کی خوفناک اور عظیم فوج پورے ایشیا میں دہلی سے دمشق تک، اور بحیرۂ آرال سے لے کر خلیجِ عرب تک پھیل گئی۔
فارس، ارمینیا، فرات اور دجلہ کے بڑے علاقے اس کی سلطنت کا حصہ بن گئے، اس نے روس کے کئی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا، دریائے وولگا کے کنارے دور دراز علاقے، اردن اور دنیپر تک بھی اس کا جھنڈا لہرانے لگا۔ اس نے اعلان کیا تھا کہ وہ دنیا کے کونے کونے میں اپنی فتح کا پرچم لہرائے گا اور پوری دنیا پر حکومت کرے گا۔
وہ اکثر یہ کہا کرتا تھا کہ زمین پر صرف ایک بادشاہ ہونا چاہیے، کیونکہ آسمانوں کا بھی ایک ہی بادشاہ ہے۔ تیمورلنگ نہایت بہادر اور جنگی حکمت و دانائی کا مالک تھا۔ وہ کسی بھی کام کی شروعات سے پہلے اس کے بارے میں مکمل معلومات جمع کرتا تھا، جاسوس بھیجتا، گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کرتا اور وقت سے فائدہ اٹھاتا تھا۔ وہ سکون سے فیصلے کرتا تھا، اور اس کے لشکر اس کے ہر حکم کے تابع ہوتے تھے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے تیمورلنگ علماء، مذہبی شخصیات اور خصوصاً نقشبندیہ سلسلے کے مشائخ کی بہت عزت کرتا تھا۔
بایزید اور تیمورلنگ کے درمیان جنگ کے مختلف اسباب اور وجوہات تھیں، جن میں چند درج ذیل ہیں:
(۱) عراق کا وہ امیر جس کے علاقے تیمورلنگ نے فتح کیے تھے، بایزید کے پاس پناہ لینے آ گیا تھا۔ اسی طرح ایشیائے کوچک کے بعض رہنماؤں نے بھی تیمورلنگ سے پناہ مانگی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بایزید اور تیمورلنگ ایک دوسرے کے مد مقابل آ گئے۔
(۲) عیسائی تیمورلنگ کو بایزید پر حملے کی ترغیب دیتے تھے اور اس سے بایزید کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔
(۳) دونوں طرف سے ایک دوسرے کو ایسے خطوط لکھے گئے جنہوں نے جنگ بھڑکانے میں ایندھن کا کام کیا۔
تیمورلنگ نے ایک خط میں بایزید کی توہین کی اور لکھا کہ تمہارے خاندان کی اصل مشکوک ہے، لیکن میں تمہیں اس لیے معاف کرتا ہوں کیونکہ عثمانیوں نے اسلام و مسلمانوں کی بڑی خدمت کی ہے۔ تیمور نے خط کے آخر میں بایزید کے بارے میں نازیبا الفاظ لکھے اور کہا: یہ بھی ترکوں کا سردار ہے؟!
اس بات سے بایزید سخت ناراض ہوا اور دو ٹوک انداز میں جواب دیا کہ وہ تیمور کو تبریز جو اس وقت تیمور کی سلطنت کا دارالحکومت تھا میں اس گستاخی کی سزا دے گا۔
ان تمام باتوں سے بڑھ کر اصل وجہ یہ تھی کہ دونوں بادشاہ اپنی اپنی سلطنتوں کو وسعت دینا چاہتے تھے، اور یہی بات ان کے درمیان جنگ کا بنیادی سبب بنی۔
عثمانیوں کی شکست:
تیمورلنگ نے اپنی فوج کو آگے بڑھایا اور سیواس شہر فتح کر لیا۔ اس شہر کے دفاع پر بایزید کا بیٹا ارطغرل مامور تھا، لیکن وہ شکست کھا گیا، حالانکہ اس کے پاس ایک لاکھ بیس ہزار ۱۲۰،۰۰۰ جنگجو موجود تھے۔
تیمور کا لشکر سن ۸۰۴ ہجری /۱۴۰۲ عیسوی میں مکمل طور پر تیار ہوا اور وہ عنقرہ (موجودہ انقرہ) کی طرف روانہ ہوا تاکہ بایزید کا مقابلہ کرے۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے آ گئیں۔ ۲۰ جولائی ۱۴۰۲ء/ ۸۰۲ھ کو تیمور نے اپنی فوج کو حملہ کرنے کا حکم دیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی، اور آخرکار فتح مغلوں کو نصیب ہوئی۔
بایزید گرفتار کر لیا گیا اور قید کے عالم میں ایک سال بعد وفات پا گیا۔
تیمورلنگ کے مقابلے میں بایزید کی شکست کی سب سے بڑی وجہ اس کی جلد بازی اور جنگی جنون تھا۔ اس نے دشمن کی طاقت کا صحیح اندازہ نہ لگایا اور اپنے دو ملین فوجیوں کے لیے جو میدان منتخب کیا، وہ ہرگز مناسب نہ تھا۔
تیمور کی فوج تعداد میں بایزید کی فوج سے کم تھی، مگر اس کے پاس ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو موجود تھے۔ بایزید کی فوج کے اکثر سپاہی شدید گرمی اور پانی کی کمی کی وجہ سے پیاس سے ہلاک ہو گئے۔
جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے، تو بایزید کی فوج میں شامل تاتاری سپاہی میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، اسی طرح آسیویہ کے وہ فوجی جو مفتوحہ علاقوں سے بایزید کے ساتھ شامل ہوئے تھے، وہ بھی میدان میں ثابت قدم نہ رہ سکے۔
اگرچہ بایزید اور اس کی بچی کھچی فوج نے بڑی بہادری سے جنگ کی، لیکن آخرکار انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔